بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ کی اقتدا میں تراویح پڑھنا


سوال

نابالغ کی امامت میں پڑھی گئی تراویح کا کیا حکم ہے؟

جواب

جس طرح فرض نمازوں میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، ایسے ہی تراویح میں امامت کے لیےبھی امام کا بالغ ہونا ضروری ہے۔

اور بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات (احتلام،انزال وغیرہ) ظاہر ہوجائیں تو  وہ امامت کرسکتاہے، علامات ظاہر نہ ہوں تو  قمری اعتبار سے پندرہ سال کا لڑکا بالغ شمار ہوگا، اور اس کی امامت درست ہوگی،  اور علامات ظاہر نہ ہونے کی صورت میں  پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا نابالغ شمار ہوگا، اور اس کی امامت  بالغ مقتدیوں کے لیے درست نہیں ہوگی۔

ہاں نابالغ بچہ تراویح پڑھائے اور اس کے پیچھے نابالغ بچے ہی تراویح ادا کریں تو درست ہے۔

باقی چوں کہ تراویح کا وقت عشاء کے بعد سے فجر سے پہلے تک ہے، اور اس کی قضا نہیں ہے، اس لیے جو  تراویح پہلے نابالغ کی اقتدا میں پڑھ لی ہوں  اس پر توبہ استغفار کرے، اس کی قضا لازم نہیں ہے، اور آئندہ  نابالغ کی اقتدا  میں تراویح نہ پڑھیں۔

الاختيار لتعليل المختار (1/ 58):

"قال: (ولاتجوز إمامة النساء والصبيان للرجال) أما النساء فلقوله عليه الصلاة والسلام: «أخروهنّ من حيث أخرهنّ الله»، وإنه نهي عن التقديم. وأما الصبيّ فلأنّ صلاته تقع نفلاً فلايجوز الاقتداء به، وقيل: يجوز في التراويح؛ لأنها ليست بفرض، والصحيح الأول؛ لأنّ نفله أضعف من نفل البالغ فلايبتنى عليه".

الفتاوى الهندية (1/ 85) :

"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز، كذا في الخلاصة ... المختار أنه لايجوز في الصلوات كلها، كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144209200726

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں