بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنا


سوال

ایک بندہ اپنے نابالغ بیٹے کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟ خیال رہے کہ نابالغ شوہر نے اس کے ساتھ  ہم بستری نہیں کی ہے۔

جواب

 نابالغ کی طلاق شرعا معتبر نہیں ہے ،جب تک شوہر نابالغ ہو تو وہ یا اس کا والد  اس کی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا ،نیز   اگر لڑکا  بلوغت کے بعد ہم بستری سے پہلے طلاق دے تو طلاق تو واقع ہوجائے گی ،لیکن لڑکے کا والد اس وقت بھی اپنے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح نہیں کرسکتا؛اس لیے کہ جب کسی شخص کا بیٹا  کسی عورت سے شادی کرلے ،تو  وہ عورت اس لڑکے کے باپ پر   ہمیشہ  کے لیے حرام ہوجاتی ہے ،چاہے بیٹے نے ہم بستری کی ہو  یا نہ کی ہو ۔

واضح رہے کہ لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت یہ ہےکہ لڑکے کو احتلام یا انزال ہوجائے ،  اگر بلوغت کی کوئی علامت نہ پائی جائے تو قمری حساب سے پندرہ سال کی عمر ہونے پر اسے  بالغ تسلیم کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ‌ولو ‌مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم."

(كتاب الطلاق، 3/ 230، ط: سعيد)

’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ‘‘میں ہے:

"ومنها أن يكون بالغا فلا يقع طلاق الصبي وإن كان عاقلا لأن الطلاق لم يشرع إلا عند خروج النكاح من أن يكون مصلحة وإنما يعرف ذلك بالتأمل والصبي لاشتغاله باللهو واللعب لا يتأمل فلا يعرف."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 3/ 100، ط: سعيد)

وفي الفتاوى الهندية :

"(القسم الثاني المحرمات بالصهرية) . وهي أربع فرق... (والثالثة) حليلة الابن وابن الابن وابن البنت وإن سفلوا دخل بها الابن أم لا. "

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات 1/ 274 ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے  :

"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحاً؛ لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنةً، به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا".

(رد المحتار، كتاب الحجر، فصل بلوغ الغلام بالاحتلام 6/ 153 ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں