بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچے کا پہلے صف میں کھڑا ہونا اور اس کو پہلی صف سے پیچھے کھینچنے کا حکم


سوال

اگر کوئی نابالغ بچہ پہلی صف میں کھڑا ہوجائےتو بعد میں آنے والے بالغ نمازی حضرات اس کوپيچھےکھڑاکرکےخود پہلی صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نماز میں صفوں کی ترتیب کا عام حکم یہ ہے کہ بچوں کی صف مردوں کی صفوں کے پیچھے ہو، البتہ اگر بچے زیادہ نہ ہوں، بلکہ تھوڑے ہوں اور اُن کی صف پیچھے بنانے کی صورت میں وہ باہم شرارت اور شور شرابہ کرتے ہوں ( جیسا کہ آج کل بچوں کی تربیت کی کمی کی وجہ سے یہ شکایات عام ہیں) تو اس صورت میں فقہائے کرام نے ان کو مردوں کے درمیان میں کھڑے کرنے کی اجازت دی، بلکہ مناسب قرار دیا، تاکہ بچوں کی تربیتِ جماعت کا سلسلہ جاری رہے اور مردوں کی نماز میں بھی خلل واقع نہ ہو، بچوں کو صف کے درمیان میں کھڑے کرنے کی یہ گنجائش ہر صف میں دی ہیں، البتہ پہلی صف بالخصوص امام کے پیچھے کھڑے کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں نابالغ اور چھوٹے بچے پہلی صف چھوڑ کر دیگر صفوں میں کھڑے ہونے چاہیے، پھر جب مردوں کی صفوں میں کھڑے ہوں تو مردوں کے لیے اُن کو پیچھے کرکے خود وہاں کھڑا ہونا درست طریقہ نہیں، اس سے بچوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور یہ اُن کے لیے مسجد آنے میں رکاوٹ کا باعث بھی ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔

باقی اگر کوئی چھوٹا بچہ پہلی صف میں امام کے قریب کھڑا ہو تو اُس کا ایسی جگہ کھڑا ہونا ہی ٹھیک نہ تھا، اس لیے اُس کو ہٹا کر کنارے میں یا دوسری صف میں کھڑا کرنے کی گنجائش ہے، لیکن اگر کنارے میں کھڑا ہو تو ہٹانا مناسب نہیں ہے، یہ حکم اُن بچوں کے بارے میں ہے جن کو نماز  کی تربیت کا حکم ہے، جن کی عمر کم از کم سات سال ہوں، اور اگر اس سے چھوٹے بچے ہوں تو اُن کو مسجد  میں لانا ہی نہیں چاہیے، جو کہ مسجد  کے آداب  سے آشنا نہیں۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(ويصف)...الرجال) ظاهره يعم العبد (ثم الصبيان) ظاهره تعددهم، فلو واحدا دخل الصف.

وفي الرد: (قوله فلو واحدا دخل الصف) ‌ذكره ‌في ‌البحر ‌بحثا، قال: وكذا لو كان المقتدي رجلا وصبيا يصفهما خلفه لحديث أنس فصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا.

وفي تقريرات الرافعي: (قوله: ذكره في البحر بحثاً) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال؛ لأن المعهود منهم إذا اجتمع صبيان فأكثر تبطل صلاتهم بعضهم ببعض وربما تعدی ضررهم إلي إفساد صلاة الرجال. انتهي. سندي."

(کتاب الصلوٰۃ، باب الإمامة 1 /568،571  ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ويصف الرجال ثم الصبيان ثم النساء) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «ليليني منكم أولو الأحلام والنهى» ولأن المحاذاة مفسدة فيؤخرون، وليلني أمر الغائب من الولي وهو القرب، والأحلام جمع حلم بضم الحاء وهو ما يراه النائم أريد به البالغون مجازا؛ لأن الحلم سبب البلوغ، والنهى جمع نهية وهي العقل كذا في غاية البيان ولم يذكر الخناثى كما في المجمع وغيره لندرة وجوده، وذكر الإسبيجابي أنه يقوم الرجال صفا مما يلي الإمام ثم الصبيان بعدهم ثم الخناثى ثم الإناث ثم الصبيات المراهقات، وفي شرح منية المصلي المذكور في عامة الكتب أربعة أقسام. قيل وليس هذا الترتيب لهذه الأقسام بحاصر لجملة الأقسام الممكنة فإنها تنتهي إلى اثني عشر قسما والترتيب الحاصر لها أن يقدم الأحرار البالغون، ثم الأحرار الصبيان، ثم العبيد البالغون، ثم العبيد الصبيان، ثم الأحرار الخناثى الكبار، ثم الأحرار الخناثى الصغار، ثم الأرقاء الخناثى الكبار، ثم الأرقاء الخناثى الصغار، ثم الحرائر الكبار، ثم الحرائر الصغار، ثم الإماء الكبار، ثم الإماء الصغار اهـ.

وظاهر كلامهم متونا وشروحا تقديم الرجال على الصبيان مطلقا سواء كانوا أحرارا أو عبيدا فإن الصبي الحر وإن كان له شرف الحرية لكن المطلوب هنا قرب البالغ العاقل بالحديث السابق نعم يقدم البالغ الحر على البالغ العبد، والصبي الحر على الصبي العبد والحرة البالغة على الأمة البالغة والصبية الحرة على الصبية الأمة لشرف الحرية من غير معارض ولم أر صريحا حكم ما إذا صلى ومعه رجل وصبي، وإن كان داخلا تحت قوله والاثنان خلفه وظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل والصبي ويكونان خلفه فإنه قال فصففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا ويقتضي أيضا أن الصبي الواحد لا يكون منفردا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم وأن محل هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال وجمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان."

(كتاب الصلوٰة، باب الإمامة 1 /374،375، ط : دار الکتاب الإسلامي)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

"سوال: جمعہ اور عیدین کی نماز میں نابالغ صفِ اول میں کھڑا ہوسکتا ہے یا نہیں؟

جواب: نابالغ اگر متعدد ہوں تو مسنون یہ ہے کہ ان کی علیٰحدہ صف مردوں کے پیچھے کی جاوے، اگر ایک ہو تو بالغین ہی کی صف میں کھڑا ہوجاوے۔۔۔اس حکم میں صلواتِ خمسہ یا جمعہ یا عیدین کی کہی تخصیص نہیں دیکھی، اسی طرح نابالغین کو تنہا ہونے کی شکل میں مردوں کی صف میں کھڑے ہونے کےمتعلق صفِ اول یا  ثانی کی بھی تخصیص نہیں دیکھی، بظاہر حکم عام ہے، لیکن امام کے قریب "أولو الأحلام و النھیٰ" کو کھڑے ہونے کا حکم رویات سے ثابت ہے، اس لیے اگر نابالغ صفِ اول میں کھڑا ہو تو ایک طرف کنارے پر ہو۔"

(فتاوٰی محمودیہ، 6/491، ط: ادارہ الفاروق)

فتاوٰی رشیدیہ میں ہے:

"نابالغ اگر ایک ہو تو اس کو صف کے ایک طرف کھڑا ہونا چاہیے، زیادہ ہوں تو پیچھے کھڑے ہو، صف کے بیچ کھڑے ہونے کا حکم نہیں"۔

(فتاوٰی رشیدیہ، ص: 365، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)

أحسن الفتاوٰی میں ہے:

"بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب ہے، اگر ان سے کسی شرارت اور اپنی نمازیں خراب کرنے اور دوسروں کی نمازوں میں خلل ڈالنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسی پر عمل کرنا چاہیے، مگر اس زمانہ میں مشاہدہ ہے کہ جب بچے اکھٹے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ ضرور شرارت کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، ہنستے ہیں، جس سے ان کی اپنی نماز تو خراب ہوتی ہی ہے، بالغین کی نمازوں میں بھی شدید خلل ہوتا ہے، اسی بناء پر بعض متاخرین فقہاء رحمھم اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی ہے کہ بچوں کو بالغین کی صف میں کھڑا کرنا ہی متعین ہے، چناں چہ علامہ رافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال؛ لأن المعهود منهم إذا اجتمع صبيان فأكثر تبطل صلاۃ بعضهم ببعض وربما تعدی ضررهم إلي إفساد صلاة الرجال. انتهي. سندي.

خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کو پیچھے کھڑا کرنا مستحب لعینہ ہے اور عوارضِ مذکورہ کی بنا  پر بالغین کی صفوں میں متفرق کھڑا کرنا مستحب لغیرہ ہے، جو خاص حالات وضرورتِ شدیدہ کے وقت درجۂ واجب تک بھی پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ علامہ رافعی کی مذکورہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے"۔

(تتمہ احسن الفتاوٰی، 10/302، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں