بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کے مال میں زکوٰۃ کا حکم


سوال

ہم روس کے ایک  شہر میں رہتے ہیں ،یہاں پر حکومت کی طرف سے وظیفہ کی مد میں ہمارے نابالغ بچوں کے لیے  ان کے اکاؤنٹ میں ہر مہینہ پیسے آتے ہیں ،یہ  رقم اگر نصاب  زکوٰۃ  کے برابر یا اس سے زیادہ ہو جائے تو ان نابالغ بچو ں کے مال میں زکوٰۃ  دینے کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

جس طرح نماز ،روزہ ، حج اور دیگر عبادات نابالغ پر فرض نہیں ہیں اسی طرح اس پر زکاۃ بھی فرض نہیں ہے ؛ لہذا اگر بچہ یا بچی  صاحبِ نصاب ہے، تب بھی نابالغ ہونے کی وجہ سے ان کے مال پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی ، اور ولی کے ذمے بھی نابالغ کے مال سے زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرط افتراضها عقل وبلوغ...  (قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها، وإيجاب النفقات والغرامات لكونها من حقوق العباد والعشر، وصدقة الفطر لأن فيهما معنى المؤنة."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:258، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101106

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں