بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ اولادکانفقہ کس کے ذمہ ہے؟


سوال

میری بیٹی کی اپنے شوہرکےساتھ  چارماہ قبل لڑائی ہوئی تھی،جس کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کوگھرلےکرآیا،(کیوں کہ میراداماداپنے گھرمیں جوےکےلئے مردوں کولاتاتھا،جب کہ میری بیٹی اس کومنع کرتی تھی)، میری بیٹی کےچاربچےنابالغ بھی ہیں،اس کےشوہرنے ابھی تک بچوں کاکوئی خرچہ نہیں دیا۔

اب میرامطالبہ یہ ہے کہ کیاشرعاًاس پرلازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کاخرچہ  اٹھائے ؟

جواب

واضح رہے کہ جب تک اولادنابالغ ہو،اوران كاوالدحیات ہواوراپنی اولادکانان ونفقہ اٹھانےکےقابل ہوتوبالغ ہونےاورکمائی کےقابل ہونےتک بیٹوں کانفقہ باپ پرلازم ہے،تاہم اس کےبعدبھی اگروہ اپنی خوشی سے بیٹوں کانفقہ دیتارہےتوکوئی مضائقہ نہیں ہے،البتہ بیٹیوں کانفقہ بالغ ہونےکےبعدبھی باپ کےذمہ ہوتاہےجب تک کہ ان کی شادی نہ ہوجائے۔

لہذاصورت مسئولہ میں آپ اپنےداماد سےبچوں کےآئندہ نان ونفقہ طے کر کےاس  کا مطالبہ کرسکتےہیں،گذشتہ مدت کےنفقہ کامطالبہ نہیں کرسکتے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن."

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص: 612، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، باب النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:560، ط:دارالفکر)

وفيه ايضاً:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن يكون الولد عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1، ص:562، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں