بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر شادی شدہ بیٹیوں کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے؟


سوال

بالغ لڑکی جو کہ اپنا خرچہ پورا کرنے کے لیے گھر پر کچھ کام کرتی ہے اس   کی محنت کا پیسہ والدین گھر  کے اخراجات یا اپنے مفاد کے  لیے استعمال کرسکتے یا نہیں ؟ جب کہ والدین  بیٹیوں کوخرچہ بھی نہیں دیتے  ، والد کبھی کام کرتا ہے تو کبھی گھر پر بیٹھ کر بیٹیوں کی محنت کے پیسوں سے گھر چلاتا ہے ، تو کبھی مزارات پر تفریح کیلئے جاتا ہے ، گھر پر بیٹے بھی کمانے والے ہیں اوروالد ماشاءاللہ  ماہر درزی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  بیٹے جب تک چھوٹے ہوں اور کمانے کے قابل نہ ہوں، اور بیٹیاں جب تک ان کی شادی نہ ہو جائے اس وقت تک ان کے اخراجات والد کے ذمہ  ہیں۔لہذا گھر کے اخراجات اور غیر شادی شدہ بیٹیوں کا نان ونفقہ  باپ کے ذمہ ہے، باپ  کاگھر کے اخراجات نہ دینے کے بجائے ان کی آمدنی استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ تاہم اگر  بیٹی اپنی کمائی اپنی خوشی سے والد کو  دےتو پھر والد کے لیے استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1،ص:560، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة".

(الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1،ص:562، ط: رشيدية)

 فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144412100971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں