بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نعت خواں عورت کا نعت پڑھنے کے لیے میک اَپ کرنا


سوال

نعت خواں عورت کا نعتیں پڑھنے کے لیے میک اَپ اور بناؤ سنگھار کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی نعت خواں عورت  صرف عورتوں کے مجمع میں (جس میں کوئی نامحرم مرد نہ ہو، اور نامحرم مرد تک عورت کی آواز نہ جائے)  حمد و نعت،  حکمت و دانائی پر مشتمل اور صحیح معنی و مفہوم والے اشعار  پڑھتی ہو  اور اس کے لیے  جائز حدود میں رہ کر میک اَپ وغیرہ بھی کر لیتی ہو  (مثلًا: خوب صورتی کے لیے آئی برو نہ بناتی ہو وغیرہ وغیرہ) تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں۔

لیکن اگر وہ عورت مخلوط  مجمع میں نعتیں پڑھتی ہو یا  اپنی نظموں  اور نعتوں کی ویڈیو  یا آڈیو ریکارڈنگ کر کے یو ٹیوب وغیرہ پر اَپ لوڈ کرتی ہو تو اس صورت میں اس کا  یہ فعل ہی جائز نہیں، چہ  جائے کہ اس کے لیے بناؤ سنگھار  کی اجازت دی  جائے، ویڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں تصویر سازی کا گناہ بھی مستقل ہوگا، اور یوٹیوب پر نعت اَپ لوڈ کرنے میں کئی شرعی مفاسد پائے جائیں گے، (مثلًا: یوٹیوب چینل بناتے وقت غیر شرعی معاہدہ کرنا، اشتہارات میں غیر شرعی اشتہارات چلنا)  اور یوٹیوب سے  اگر آمدن حاصل کی جارہی ہو تو آمدن کا یہ عقد بھی شرعًا جائز نہیں ہوتا۔

اسی طرح اگر کوئی عورت صرف عورتوں کی محفل میں ہی نعت پڑھے، لیکن اس کی  آواز مجلس سے باہر غیر محارم تک بھی جارہی ہو، یا نعتوں کی آڈیو ریکارڈنگ  کی خود تشہیر کرے تو  اس کی بھی شرعًا اجازت نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ  اس صورت میں اس کی آواز غیر محرم مرد بھی سنیں گے اور   عورت کے لیے اپنی آواز  (خصوصًا جب کہ اس کی تحسین کی کوشش بھی کرے) غیر محارم پر پیش کرنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 406):

"وصوتها على الراجح وذراعيها على المرجوح.

(قوله: و صوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام  من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: و لايظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب و محاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں