بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نعت خوانی کے دوران سبحان اللہ کہنا


سوال

نعت خواں کا جب نعت یا نظم وغیرہ پڑھتے وقت کوئی ایک مصرع سامعین کو پسند آجائے تو نعت خواں سامعین سے پسندیدہ مصرعہ پر سبحان اللہ ، ماشاءاللہ کہنے کا مطالبہ کرے، تو نعت خواں کا مطالبہ کرنا اور سامعین کا جواب دینا (یعنی سبحان اللہ کہنے کا)، شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

جس مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو اُس مجلس میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر  دُرود پڑھنا واجب ہے، متعدد بار نام گرامی آنے کی صورت میں بار بار درود پڑھنا بہتر، باعثِ برکت اور سببِ نزولِ رحمت ہے، اس لیے محفلِ نعت میں درود شریف کے پڑھنے کا اہتمام ہونا چاہیے، باقی کسی قابلِ تعجب چیز کو دیکھ کر یا سن کر "سبحان اللہ" کہنا حضرات صحابہ کرام سے منقول ہے، اس لیے اگر نعتیہ اشعار بھلے معلوم ہوں اور نعت خواں کو داد دینے کی غرض سے "سبحان اللہ" کہا جائے  تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس موقع پر آواز معتدل ہونی چاہیے، بہت زیادہ بلند آواز سے سبحان اللہ کہنا کسی طرح پسندیدہ نہیں ہے، لیکن نعت خواں کے لیے از خود سبحان اللہ کہنے کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں۔

صحیح البخاری میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بينما راع في غنمه عدا الذئب، فأخذ منها شاة فطلبها حتى استنقذها، ‌فالتفت ‌إليه ‌الذئب، فقال له: من لها يوم السبع ليس لها راع غيري "، فقال الناس: سبحان الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم «فإني أومن به وأبو بكر، وعمر، وما ثم أبو بكر وعمر۔"

(کتاب المناقب، ‌‌باب مناقب عمر بن الخطاب، جلد:5، صفحہ:12، طبع: السلطانیہ)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا، ایک بھیڑیے نے جھپٹ کر ایک بکری کو پکڑ لیا۔ چرواہا اس کے پیچھے بھاگا تو بھیڑیے نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: جس دن درندوں کا راج ہوگا اور میرے سوا کوئی چرواہا نہیں ہوگا،  اُس دن ان کی حفاظت کون کرے گا؟ لوگوں نے (تعجباً) کہا: سبحان اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی، (راوی کہتے ہیں کہ) اس موقع پر ابو بکر و عمر وہاں موجود نہیں تھے۔"

شعب الایمان للبیھقی میں ہے:

"عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ‌من ‌رأى ‌شيئا يعجبه، فقال: ما شاء الله لا قوة إلا بالله لم يضره ۔"

(تعدید نعم اللہ وما یجب من شکرھا، جلد:6، صفحہ: 212، طبع: مكتبة الرشد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو سمع اسم النبي - عليه السلام - فإنه يصلي عليه، فإن سمع مرارا في مجلس واحد اختلفوا فيه قال بعضهم: لا يجب عليه أن يصلي إلا مرة، كذا في فتاوى قاضي خان. وبه يفتى، كذا في القنية ...إن لم يصل على النبي صلى الله عليه وآله وأصحابه عند سماع اسمه تبقى الصلاة دينا عليه في الذمة."

(کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع، جلد:5، صفحہ: 315، طبع: دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب".

(کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع فی الصلاۃ، جلد:5،  صفحہ: 319، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں