بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نعت خوانی پر اجرت لینے کا حکم


سوال

آج کل جو لوگ نعت کہنے کو پروفیشن بناتے ہیں  یعنی نعت کہنے پر اجرت لیتے ہیں، اس کا کیا  حکم ہے؟ اور اگر نعت سکھانے پر اجرت لیتا ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

  اگر کسی نعت خواں نے خود کو  نعت خوانی کے لیے فارغ کیا ہوا ہے  تو اس کے لیے اجرت لینا جائز ہے، اسی طرح نعت خوانی اجرت لے کر  سکھانا بھی جائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في الأصل لا يجوز ‌الاستئجار ‌على ‌الطاعات كتعليم القرآن والفقه والأذان والتذكير والتدريس والحج والعمرة ولا يجب الأجر. كذا في الخلاصة....

وبه يفتى وكذا جواز الاستئجار على تعليم الفقه ونحوه والمختار للفتوى ‌في ‌زماننا قول هؤلاء. كذا في الفتاوى العتابية."

(ج:4، ص:448، ط:رشیدیہ)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اگر وعظ  کی نوکری کر لی مثل امامت کے، تو اجرت لینا جائز ہے۔ اور اگر نوکری نہیں ہے،  عین وقت پر وعظ پر اجرت کی شرط کرے تو جائز نہیں،  جیسے عین وقت میں امامت پر اجرت مانگنے لگے ۔"

(کتاب الاجارۃ، ج:3، ص:389، ط:دار العلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں