بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نعت کے ساتھ بیک گراؤنڈ دف کی آواز آرہی ہے اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

 آج کل نعت کے ساتھ بیک گراؤنڈ دف اور اللہ اللہ کا ذکر اور مصطفیٰ مصطفیٰ بولنا اور صحابہ صحابہ بولنا اور محسوس ایسا ہو جیسے بیک گراؤنڈ میوزک اور دف کی آواز آرہی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ اور یہ سب ہمارے نعت خوان حضرات اس طرح کی نعتیں پڑھ رہے ہیں، جس میں بیک گراؤنڈ ایسی آوازیں سنائی دیں ،جس سے محسوس ہو یہ میوزک بج رہا ہے ، براہِ کرم تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالی کا ذکر  حمد ونعت نہایت مہتم بالشان چیز ہے،جس کے پڑھنے اورسننے والے کے دل میں اللہ اوراس کے رسول کی محبت میں اضافہ ہوتاہےبالفاظ دیگر حمدسے اللہ یادآتاہے اورنعت سے رسول خدا کی محبت پیداہوتی ،جب کہ دوسری طرف گانے اورباجے سے شیطانیت اورخرافات کی یاد تازہ ہوتی ہےدل میں نفاق پیدا ہوتاہے ،دوم یہ کہ بنیادی خرابی گانے اورباجے کے آلات کی ذات میں نہیں( وہ تو لکڑی اورتار یا چمڑاوغیرہ ہیں)بلکہ اصل خرابی اس سے پیدا ہونے والی آواز میں ہے،لہذا جب کوئی ڈھول اورطبلے وغیرہ سے پیدا ہونے  والی آواز کی طرح آواز کسی اور چیز سے پیدا کرتاہے اگرچہ اس کے لئے اللہ کے نام یا کوئی اورلفظ کوخاص انداز میں استعمال کرتاہو اس صورت میں پیدا ہونے والی آواز میوزک اورگانے کی آواز کےاتار چڑھاؤکے مشابہ  ہوتی ہے ،جس سے یاد خدا کی لذت  کے بجائے وہ لطف وسرور حاصل ہوتاہے جو کہ میوزک اورگانے سننےسے حاصل ہوتاہے،یہ درست طریقہ نہیں بلکہ یہ طریقہ خیر کے ساتھ شر کی ملاؤٹ کے مترادف ہے ،بلکہ ایک اعتبارسے اللہ کے نام کی عظمت کے خلاف اوربے ادبی ہے،اس سےبچنا ضروری ہے،لہذ ا صورت مسئولہ  میں مذکورہ طریقہ پر نعت پڑھنا کہ بیک  گراؤنڈ میں اللہ تعالی کے  نام  کا ذکر  یا مصطفی مصطفی یا صحابہ صحابہ لگایاجاتاہے  ، اس میں مذکورہ ناموں  کی بے ادبی کا پہلو نظر آتا ہے،کیوں کہ اس میں موسیقی  کی دھنوں کی رعایت رکھی جاتی ہے اور بعض اوقات ڈھول کی آواز کا بدل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، نعت کے بیک گراؤنڈ میں  مروجہ طریقے سے ذکر لگانا جائز نہیں،یہ بات بھی واضح رہے کہ  موسیقی صرف گانے کا نام نہیں،بلکہ اس فن کو کہتے ہے جس کے ذریعے گانے میں سُر نکالنے کے احوال،  اور سُروں کی موزونیت کے احوال، اور آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے کے احوال، اور راگ کے احوال سے بحث کی جاتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن نافع رحمه الله قال : كنت مع ابن عمر في طريق فسمع مزماراً، فوضع أصبعيه في أذنيه، وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد : يا نافع هل تسمع شيئاً ؟ قلت : لا، فرفع أصبعيه عن أذنيه قال : كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت . قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيراً . رواه أحمد وأبو داود".

(مشکوٰۃ  المصابیح، باب البیان والشعر، رقم الحدیث:4811، ج:3، ص:1355، ط:المکتب الاسلامی)

"ترجمہ:حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا :اے نافع کیا تم کچھ  سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا۔"

موسوعہ فقہیہ میں ہے:

"وأما علم الموسيقى: فهو علم رياضي يعرف منه أحوال النغم والإيقاعات،وكيفية تأليف اللحون،وإيجاد الآلات."

(المادة:علم، ج:30، ص:293، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الكويت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "«وعن نافع - رحمه اللَّه - قال: كنت مع ابن عمر في طريق، فسمع مزمارا، فوضع أصبعيه في أذنيه وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: يا نافع! هل تسمع شيئا؟ قلت: لا، فرفع أصبعيه من أذنيه، قال: كنت مع رسول اللَّه فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت. قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيرا» . رواه أحمد، وأبو داود.

وفي فتاوى قاضي خان: أما استماع صوت الملاهي كالضرب بالقضيب ونحو ذلك حرام ومعصية لقوله عليه السلام: " «استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها من الكفر» " إنما قال ذلك على وجه التشديد وإن سمع بغتة فلا إثم عليه، ويجب عليه أن يجتهد كل الجهد حتى لا يسمع لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدخل أصبعه في أذنيه".

( باب البيان والشعر ، الفصل الثالث، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144404102046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں