بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو القعدة 1446ھ 23 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نام یا تاریخِ پیدائش کے اعتبار سے کسی مخصوص برج اور پتھر نکالنے اور اس سے جڑے نظریات کا حکم


سوال

ارضا نام کا ستارہ اور پتھر کون سا ہے؟

جواب

ستاروں، سیاروں اور ہاتھوں کی لکیروں کا انسانی زندگی کے سنورنے یا بگڑنے میں کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح مخصوص پتھر بھی انسانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ انسان کی زندگی کے مبارک یا نامبارک ہونے کا مدار اُس کے اپنے اعمال پر ہے۔ نیک اور اچھے اعمال انسان کے لئے سعادت و برکت کا ذریعہ بنتے ہیں، جبکہ برے اعمال زندگی میں نحوست، مصیبت اور بے سکونی کا باعث بن جاتے ہیں۔

پتھروں یا اعداد و شمار کو مؤثر و کارگر سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ: ” مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا  تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا“، نئے مسلمان ہونے والے لوگوں  کے دلوں میں پتھروں کی تاثیر کا جاہلی عقیدہ مٹانے کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ  ان کے سامنے حجر اسود سےاس انداز میں گویا ہوئے۔

لہٰذا کسی شخص کے نام یا تاریخِ پیدائش کے اعتبار سے کسی مخصوص پتھر کو منتخب کرکے یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ پتھر اس کی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا ،نہایت ہی باطل اور غلط نظریہ ہے۔ اس عقیدے کے ساتھ اگر کوئی شخص انگوٹھی، لاکٹ یا کسی اور زیور میں ایسے پتھر کا استعمال کرے، تو یہ عمل شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عبد الله بن سرجس ،قال: « رأيت الأصلع - يعني: عمر بن الخطاب - يقبل الحجر، ويقول: والله إني لأقبلك، وإني أعلم أنك حجر، وأنك لا تضر، ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك ما قبلتك»."

(كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف، رقم الحديث: 1270، ج: 4، ص: 66، ط: دار طوق النجاة - بيروت)

 شرح مسلم للنووی میں ہے:

"و أمّا قول عمر رضي الله عنه: لقد علمت أنك حجر و أني لأعلم أنك حجر، و أنت لاتضرّ و لاتنفع، فأراد به بيان الحثّ على الاقتداء برسول الله صلى الله عليه و سلم في تقبيله ونبه على أنه أولا الاقتداء به لما فعله، وإنما قال: وأنك لاتضر ولاتنفع؛ لئلايغتر بعض قريبى  العهد بالاسلام الذين كانوا ألفوا عبادة الأحجار وتعظيماً ورجاء نفعها وخوف الضر بالتقصير في تعظيمها، وكان العهد قريباً بذلك، فخاف عمر رضي الله عنه أن يراه بعضهم يقبله ويعتنى به فيشتبه عليه، فبين أنه لايضر ولاينفع بذاته، وإن كان امتثال ما شرع فيه ينفع بالجزاء والثواب، فمعناه أنه لا قدرة له على نفع ولا ضر، وأنه حجر مخلوق كباقي المخلوقات التي لاتضر ولاتنفع، وأشاع عمر هذا في الموسم ليشهد في البلدان ويحفظه عنه أهل الموسم المختلفوا الأوطان والله أعلم".

(كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف، رقم الحديث: 1270، ج: 9، ص: 16، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611100225

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں