بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کا طریقہ کیا ہے؟


سوال

ميرا سوال يہ  ہے کہ  کسی بھی نئے  پيش آنے والے مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے  آپ کے دارالافتاء کا منہج کيا ہوتا ہے؟

مثلا  اجتہاد  يا اجتماعی اجتہاد۔

سيروگيسی  ( کرائے کی کوکھ)  سے  متعلق اجتہادی نوعيت کی راہنمائی  درکارہے۔

جواب

1۔ صورتِ  مسئولہ میں نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے قرآن  و سنت  اور کتب فقہ و فتاوی   سے استفادہ کیا جاتا ہے، پس اگر  کوئی صریح  جزئیہ نہیں ملتا تو فقہ حنفی کے اصول  سے استنباط   کرکے  باہمی مشاورت سے دار الافتاء کی متفقہ رائے کے مطابق فتوی جاری کیا جاتا ہے۔نیز اہم مسائل  میں دیگر دارالافتاء سے بھی مشاورت کا سلسلہ رہتا ہے ۔

2۔ واضح رہے کہ خالقِ کائنات نے  تخلیقِ انسانی  سے لے کر  قیامت تک  نسلِ انسانی کی بقا کے لیے  ایک طریقہ  نکاح کا  رکھا ہے اور  مملوکیت یعنی باندی کے ذریعہ  اولاد کے حصول کا دوسرا طریقہ رکھا ہے، اور ان دو طریقوں  کے علاوہ حصولِ اولاد کے باقی تمام ذرائع ممنوع قرار  دیے ہیں،  اور ساری انسانیت کو پابند کیا گیا ہے کہ خالقِ کائنات کی جانب سے متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے حصولِ اولاد کی کوشش کرے اور ان حدود  کی خلاف ورزی کی ہرگز کوشش نہ کرے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

يَأيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَ نِسَاءً.(النساء: ١)

ترجمہ:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کرکے روئے زمین پر پھیلا دیے"۔ 

ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (٢٩) إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (٣٠) فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (٣١)

( المعارج: ٢٩ - ٣١)

ترجمہ:"اور جو اپنی شرمگاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں۔ سوائے اپنی بیویوں اور ان باندیوں کے جو ان کی ملکیت میں آچکی ہوں، کیونکہ ایسے لوگوں پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں وہ حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں "۔

نیز جس طرح اناج و غلہ کے حصول کے لیے  زمین پر زراعت کی جاتی ہے اولاد کے حصول کے لیے  باری تعالی نے بیویوں کو بمنزلہ کھیت قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

"نِسَاؤكمْ حَرْثٌ لًَكُمْ فَأْتُوْا حَرْثَكُمْ أَنّٰى شِئْتُمْ"( البقرة: ٢٢٣)

ترجمہ:"تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں جس طرح چاہو  ان کے پاس جاؤ"۔

پس جس طرح دوسرے کی زمین پر کھیتی کرنا ناجائز ہے، بالکل اسی طرح اپنی منکوحہ یا مملوکہ کے علاوہ کسی اور خاتون کے رحم کو سیراب کرنا (مادہ منویہ اجنبی خاتون کی بچہ دانی میں ڈالنا خواہ فطری طریقہ سے ہو یا غیر فطری طریقہ سے ہو) بھی ناجائز ہے، جیساکہ سنن ابی داود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کا ارشاد منقول  ہے:

٢١٥٨ -"حدثنا النفيلي، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، حدثني يزيد بن أبي حبيب، عن أبي مرزوق، عن حنش الصنعانيعن رويفع بن ثابت الأنصاري، قال: قام فينا خطيبا، قال: أما إني لا أقول لكم إلا ما سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول يوم حنين، قال: "لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره - يعني إتيان الحبالى - ولا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يقع على امرأة من السبي حتى يستبرئها، ولا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يبيع مغنما حتى يقسم."

( كتاب النكاح، باب في وطء السبايا، ٣ / ٤٨٧، ط: دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"حضرت حنش صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ہم میں بحیثیت خطیب کھڑے ہوئے اور کہا: سنو! میں تم سے وہی کہوں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ جنگ حنین کے دن فرما رہے تھے:

" اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے پانی سے کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے"، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب حاملہ سے جماع کرنا تھا) اور اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی قیدی لونڈی سے جماع کرے یہاں تک کہ وہ استبراء رحم کر لے، (یعنی یہ جان لے کہ یہ عورت حاملہ نہیں ہے ) اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے حلال نہیں کہ مال غنیمت کے سامان کو بیچے  یہاں تک کہ وہ تقسیم کر دیا جائے۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي) : بفتح أوله أي يدخل (ماءه) : أي: نطفته (زرع غيره) : أي: في محل زرع لغيره (يعني) : هنا قول رويفع أو غيره، يريد النبي - صلى الله عليه وسلم - بهذا الكلام (إتيان الحبالى) : بفتح أوله أي جماعهن... الخ"

( كتاب النكاح، باب الاستبراء، ٥ / ٢١٨٩، ط: دار الفكر)

پس نسلِ انسانی کی بقا اور حصولِ اولاد کا فطری طریقہ از روئے شرع نکاح ہے اور اپنی منکوحہ یا مملوکہ کے علاوہ کسی اور خاتون کے ذریعہ اولاد کے حصول کی کوشش کرنا چاہے خواہ  فطری طریقہ سے ہو یا غیر فطری طریقہ سے ہو، وہ زنا  ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں حصولِ اولاد کے لیے  اجرت پر سیروگیسی  یعنی  کسی خاتون کے رحم کو استعمال کرنا خواہ ہمبستری کے نتیجہ میں بیوی  کے حمل ٹھہرنے کے بعد نطفہ کو اس کے رحم سے اجنبی خاتون کے رحم میں منتقل کردیا جائے  یا غیر فطری طریقہ سے میاں بیوی کے مادہ منویہ لے کر اجنبی خاتون کے رحم میں ڈالا جائے، سب صورتیں درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز و حرام ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ:  جس اجنبی خاتون کی خدمات حاصل کی جائیں  گی وہ اس شخص کی منکوحہ نہیں ہوگی جب کہ اپنی منکوحہ یا مملوکہ کے علاوہ کسی اجنیہ سے حصولِ اولاد کی کوشش کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

دوسری وجہ  یہ ہے کہ:  حصولِ اولاد کے لیے کسی عورت کے رحم کو کرایہ پر لینے یا دینے کا طریقہ شریعت کے پاکیزہ مزاج، عفت وحیا اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، اور  بیوی  یا مملوکہ  باندی کے علاوہ کسی عورت کی شرم گاہ  سے  جس طرح بالعوض فائدہ اٹھانا حرام ہے، بالکل اسی طرح سے بلاعوض فائدہ  اٹھانا  بھی شرعا ممنوع ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

١٧٣٠١ - "حدثنا زيد بن حباب، عن يزيد بن إبراهيم، عن أيوب، عن ابن سيرين، قال: الفرج لا يعار."

( كتاب النكاح، ما قالوا في المرأة أو الرجل يحل لرجل جاريته يطؤها، ٤ / ١٣، ط: دار التاج - لبنان)

نیز اسلام میں شرم گاہ کے ذریعہ کمائی کرنے   سے بھی منع فرمایا  گیاہے اور ایسی کمائی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

١٥٦٧۔ "حدثنا يحيى بن يحيى. قرأت على مالك عن ابن شهاب، عن أبي بكر بن عبد الرحمن، عن أبو مسعود الأنصاري.

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن ثمن الكلب، ومهر البغي، وحلوان الكاهن".

( كتاب المساقاة، باب تحريم ثمن الكلب. وحلوان الكاهن، ومهر البغي. والنهي عن بيع السنور،  ٣ / ١١٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت)

وفی حاشتہ:

"(ومهر البغي) فهو ما تأخذه الزانية على الزنا. وسماه مهرا لكونه على صورته. وهو حرام بإجماع المسلمين."

ناجائز ہونے کی تیسری  وجہ یہ ہے کہ:  مذکورہ طریقہ میں اختلاطِ نسب ہوتا ہے اور زنا کے حرام ہونے کی  وجوہات میں سے ایک اہم وجہ اختلاط نسب  بھی ہے ، جبکہ  شریعتِ مطہرہ نے حفاظتِ نسب کےلیے  اور نسب کے اشتباہ سے بچنے کےلیے  ایک مرد کی زوجیت سے نکلنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح سے پہلے عدت کا مرحلہ رکھا ہے اور عدت کی تکمیل سے پہلے دوسرا نکاح ناجائز قرار دیا ہے۔

حجة الله البالغة میں ہے:

"منها: معرفة براءةرحمها من ماءه لئلا تختلط الانساب فان النسب احد ما يتشاح به و يطلبه العقلاء وهو من خواص نوع الانسان و مما امتاز به من سائر الحيوان، وهي المصلحة المرعية من باب الاستبراء."

(العدة، ٢/  ٢١٩ - ٢٢٠، ط: دار الجيل، بيروت - لبنان)

ثبوتِ نسب کے  لیے  چوں کہ عورت کا مرد کے نکاح میں ہونا شرعاًضروری ہوتا ہے؛ لہذا مذکورہ طریقہ سے پیدا ہونے والے بچہ/بچی کا نسب اس مرد سے شرعاً ثابت نہیں ہوگا جس کا مادہ منویہ اجنبی خاتون کے رحم میں ڈالا گیا تھا، پس اگر وہ اجنبی خاتون پہلے سے کسی کے نکاح میں ہو تو اس طریقہ سے پیدا ہونے والے بچہ/ بچی کا نسب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:

"الولد للفراش و للعاهر الحجر"(صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب الولد للفراش، وتوقي الشبهات، ٢ / ١٠٨٠، رقم الحديث: ١٤٥٧، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت  )  کی وجہ سے اس عورت کے  شوہر سے ثابت ہوگا جس کی کوکھ کرایہ پر لی گئی ہو، اور اگر اجنبی خاتون پہلے سے کسی کے نکاح میں نہ ہو تو اس صورت میں بھی اس بچہ/بچی کی اصل ماں وہی خاتون قرار  پائے  گی جس نے اس کو جنا ہوگا ، اور  دیگر شرعی احکامات جیسے ثبوتِ نسب ، میراث  سے محروم ہونا وغیرہ سب کا تعلق اسی خاتون سے ہوگا، ارشاد باری تعالی ہے:

"إنْ أُمَّهٰتُهُمْ إلّا الّٰئِي وَلَدْنَهُمْ."

(المجادلة: ٢)

ترجمہ:"ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔"

اس کے بر خلاف حصولِ اولاد کے لیے  حلال و پاکیزہ راستہ شریعت مطہرہ نے  رکھا ہے اور وہ راستہ ہے دوسرا نکاح،  لہٰذا  اگر پہلی بیوی سے اولاد کا حصول ممکن نہ ہو اور مرد میں ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل (برابری) کرنے کی اہلیت ہو تو ایسے شخص کے لیے  دوسرے نکاح کی شرعاً اجازت ہے اور اس کو معاشرہ میں معیوب سمجھنا بذات خود معیوب ہے ، پس حلال راستہ ہونےکے باوجود ناجائز طریقہ اختیار کرنا انتہائی قبیح عمل ہے ۔

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں