بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نا سمجھ بچے کے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹتی ہے یا نہیں؟


سوال

 نماز کے دوران اگر ناسمجھ بچه آگے (سامنے) دوڑ رها هو تو نماز ہوگی یا نهیں؟ 

جواب

نا سمجھ  بچہ اگر نمازی کے سامنے سے گزر جائے تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے، بلکہ نمازی کے آگے سے کسی بھی انسان (مرد و عورت) یا جانور کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے،  البتہ جان بوجھ کر نمازی کے سامنے سے گزرنا (خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مکلف ہو) سخت گناہ ہے۔ اور اگر نمازی کے  سامنے سترہ موجود ہو تو اگر اس سترے کے پیچھے سے کوئی مرد یا عورت گزر جائے تو گزرنے والا گناہ گار نہیں ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

’’حضرت ابوجہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کی کیا سزا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہتر خیال کرے۔ (اس حدیث کے ایک راوی )  حضرت ابونضر فرماتے ہیں کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا گیا ہے‘‘۔

(صحیح بخاری و صحیح مسلم) 

مذکورہ حدیث کی تشریح میں صاحبِ مظاہرحق علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ حضرت امام طحاوی نے " مشکل الآثار" میں فرمایا ہے کہ  یہاں چالیس سال مراد ہے نہ کہ چایس مہینے یا چالیس دن۔ اور انہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی جو اپنے بھائی کے آگے سے اس حال میں گزرتا ہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے (یعنی نماز پڑھتا ہے)، وہ (اس کا گناہ) جان لے تو اس کے لیے اپنی جگہ پر ایک سو برس تک کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔ بہر حال !ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی اہمیت کا اس سے اندازا  لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا کتنی سخت  ہے تو وہ چالیس برس یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک سو برس تک اپنی جگہ پر مستقلًا کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔‘‘

المبسوط للسرخسی  میں ہے :

"و الدليل على أن مرور المرأة لايقطع الصلاة ما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلى في بيت أم سلمة فأراد عمر بن أبي سلمة أن يمر بين يديه فأشار عليه فوقف، ثم أرادت زينب أن تمر بين يديه فأشار عليها فلم تقف فلما فرغ من صلاته قال: "هن أغلب صاحبات يوسف يغلبن الكرام ويغلبهن اللئام".

(1/350،ط:دارالفکر)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 638):

"(وكفت سترة الامام) للكل.

(قوله: للكل) أي للمقتدين به كلهم؛ وعليه فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة."

العناية شرح الهداية (1/ 407):

"والثامن أن سترة الإمام سترة للقوم «؛ لأنه صلى الله عليه وسلم  صلى ببطحاء مكة إلى عنزة ولم يكن للقوم سترة»."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں