بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو القعدة 1446ھ 24 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نامناسب لباس فروخت کرنے کا حکم/بروکر کا صرف راہ نمائی کرکے کمیشن لینے کا حکم


سوال

 میرا نام جہانگیر احمد ہے۔ میں آن لائن بروکری میں مہارت رکھتا ہوں۔ میں خواتین کے نامناسب طبی لباس کی فروخت اور بروکریج سے متعلق شرعی قوانین سے متعلق سوالات پوچھنا چاہتا ہوں؟

پہلا سوال: خواتین کے طبی لباس فروخت کرنا جو کہ نامناسب قسم کے لباس ہیں۔ میں نیچے کپڑے کی تصاویر شیئر کروں گا۔ (ذہن میں رکھیں کہ یہ غیر ملکی یوکے ملک کو فروخت کیے جائیں گے اور زیادہ تر غیر مسلم پہنیں گے اور وہ پہلے سے ہی یہ لباس استعمال کرتے ہیں اور اکثر ان لباسوں کو استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر میں انہیں فروخت نہیں کرتا ہوں تو وہ پھر بھی دوسری کمپنیوں سے خریدیں گے)

دوسرا سوال: میں بروکری کے بارے میں یہ جانتا ہوں، اور میرا سوال تھوڑا سا مختلف اور تھوڑا پیچیدہ ہے: میں آسان طریقے سے سمجھانے کی کوشش کروں گا،لہذا بروکری میں بعض اوقات بہت سارے بروکرز صرف ایک پروڈکٹ سے منسلک ہوتے ہیں، جسے آخر میں بیچنے والا بیچنا چاہتا ہے، میرے پاس ایک پروڈکٹ ہے ،جس کی ڈیل  مجھے  دوسرے بروکر نے  بھیجی ہے، وہ بروکر بھی پروڈکٹ کا مالک نہیں ہے، بلکہ اس نے کسی اور بروکر یا براہ راست فروخت کنندہ سے تفصیلات حاصل کی ہیں۔(مجھے صحیح  معلوم نہیں)۔

 اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ  پروڈکٹ مہنگی ہے اور میں کسٹمر سے ایڈوانس نہیں لینا چاہتا، کیوں کہ پروڈکٹ کے ساتھ کچھ برا بھی  ہو سکتا ہے اور میں اسے پیسے واپس نہیں کر سکتا کیونکہ میرے پاس اتنے  پیسے نہیں ہوں گے،اب میں اسے اس بروکر کی تفصیلات دینے کا سوچ رہا تھا، جس نے مجھے پروڈکٹ کی تفصیلات بھیجی تھیں۔ (میں اس سے کمیشن لوں گا یعنی اگر سودا کامیاب ہو گیا تو اسے مجھے ایک لاکھ روپے دینا ہوں گے لیکن اگر سودا ناکام ہو گیا اور اس مال کے ساتھ کچھ برا ہو گیا تو میں اس کا مال یا بروکر یا ڈائریکٹ سیلر کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ میں اسے براہ راست بتا دوں گا۔ لیکن اسے بھی مجھے کمیشن نہیں دینا پڑے گا)۔ لیکن اب ایک اور مسئلہ ہے. مسئلہ یہ ہے کہ بروکر یقینی طور پر اسے پروڈکٹ کے مالک یا ملکیت کے بغیر پروڈکٹ بیچ دے گا۔ وہ بیچنے والے سے پیشگی رقم لے گا اور براہ راست بیچنے والے سے خریدے گا اور اسے  براہ راست خریدار کو بھیچے گا۔ اب سوال یہ ہے. گناہ مجھ پر پڑے گا یا اس بروکر پر (جو غیر مسلم ہے)؟ اور اگر معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور خریدار مجھے وہ رقم بھیجتا ہے جو میں خریدار سے بطور کمیشن حاصل کرتا ہوں کیا یہ حلال ہوگا؟ ایک اور چھوٹا سوال یہ ہے کہ چاہے یہ گناہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیا مجھے شریعت کے بغیر یہ تجارت کرنے کی اجازت ہے اگر میں یہ تجارت صرف ایک بار کرتا ہوں کیونکہ میرے پاس کافی رقم نہیں ہے۔ اگلی بار میں ایسا نہیں کروں گا۔ (یعنی میں بیچنے والے سے پروڈکٹ لوں گا۔ خریدار ایڈوانس رقم کے ذریعے اور براہ راست پروڈکٹ کو خریدار کو بھیج دوں گا، اس کے قبضے کےبغیر)

جواب

 الف۔واضح رہے کہ   جس لباس کا صحیح استعمال موجود ہو اور غلط بھی، تو اس کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے، ہاں  اگر خریدار اسے ناجائز طور پر استعمال کرتا ہے تو  وہ خود گناہ گار ہوگا، فروخت کرنے ولا گناہ  گار نہیں ہوگا اور اگر اس لباس  کا صرف ناجائزطور پر ہی استعمال ہوتا ہے،جائز طور پر صحیح استعمال ہوتا ہی نہیں ہے، تو اس کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے،لہذا صورت مسئولہ   میں  اگر مذکورہ طبی لباس کو ضرورت کے وقت جائز  مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو سائل کے لیے مذکورہ لباس فروخت کرنا جائز ہے۔ 

ب۔  صورت مسئولہ میں   صرف گاہک کی کسی اور بروکر کی طرف راہ نمائی  کرکے کمیشن لیناشرعاً درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية."

"(قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه، بخلاف ما لا يقتل به إلا بصنعة تحدث فيه كالحديد، ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها، ولا يكره بيع الخشب المتخذة هي منه، وعلى هذا بيع الخمر لا يصح ويصح بيع العنب. والفرق في ذلك كله ما ذكرنا فتح ومثله في البحر عن البدائع، وكذا في الزيلعي لكنه قال بعده وكذا لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ.

قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلا والغناء عارض فلم تكن عين النكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكرا إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكرا بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه، وبهذا ظهر أن بيع الأمرد ممن يلوط به مثل الجارية المغنية فليس مما تقوم المعصية بعينه"

(‌‌كتاب الجهاد،‌‌باب البغاة،268/4، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: ‌من ‌دلني ‌على ‌كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن الدلالة والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(كتاب الإجارة،‌‌باب فسخ الإجارة،مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا،95/6، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں