بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کا اپنی اشیاء کی فروخت بڑھانے کے لیے انعامی ٹوکن رکھنا


سوال

 کوئی بھی نئی کمپنی یا نیا پروڈکٹ مارکیٹ میں لانچ کرنے کے لیے، چلانے کے لیے، سیل بڑھانے کے لیے عام طور پر یہ طریقہ رائج ہے کہ اپنی پروڈکٹ پر مکینک کو فی کین ڈھکن میں یا کین پر لگے مخصوص اسٹیکر کو واپس کرنے پر 100 یا 200 روپے حسبِ مناسبِ حال دیے جاتے ہیں، اس سے کمپنی یا دوکان دار کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کبھی تو مکینک خود سے کسٹمر کو فورس کرتا ہے کہ فلاں انجن آئل لے کر آؤ، اور کبھی یہ کہ اگر دکان دار خود سے کسٹمر کو فورس کر  کے اپنا متعلقہ کین دے دیتاہے، تو مکینک ہنسی خوشی اس انجن آئل کو استعمال کروا دیتا ہے، اور کوئی چوں  چراں نہیں کرتا، کیوں کہ اس کو پتہ ہے کہ مجھے اس آئل کے استعمال کروانے پر 100 یا 200 روپے مفت میں مل جانے ہیں۔ 
اب پوچھنا یہ ہے کہ مکینک کو اسکیم کی مد میں دیے گئے ان 100 یا جتنے بھی روپوں کا شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ آیا یہ طریقہ بلا کراہت  درست ہے؟ 
اب گزارش یہ ہے کہ بندہ کی کوتاہ نظر میں یہ طریقہ اس لیے مناسب نہیں ہے کہ جو بھی کسٹمر اس متعلقہ انجن آئل کو استعمال کرے گا ،اگر تو گاڑی خرید کے بعد پہلی مرتبہ ہی ابھی آئل تبدیل کروانا ہے ،تو بھی لامحالہ اس متعلقہ انجن آئل سے اچھے اور قیمت میں سستے آئل مارکیٹ میں موجود ہوتے ہیں، تو صرف اپنے فائدہ کے لیے کسٹمر کے زیادہ پیسے لگوانا؟ 
اور اگر روٹین میں پہلے سے کوئی انجن آئل استعمال ہو رہا ہے، جس پر گاہک مطمئن بھی ہے،تو اپنے فائدہ کے لیے گاہک کو آزمودہ آئل سے ہٹا کر اپنے اس متعلقہ آئل پر لے کے آنا؟ 
رہی بات معیار کی تو عام فہم اور عام اندازہ اور عام معلومات کے مطابق تو بہرحال ملٹی نیشنل کمپنیز کے پروڈکٹس معیار میں لوکل پراڈکٹ سے اوپر ہوتے ہیں۔ 
لیکن یہ بات بس مروجہ چیزوں کی روشنی میں ہے ،ہو بھی سکتا ہے اور یہ  ممکن  بھی ہے کہ کبھی کوئی لوکل کمپنی ان  ملٹی نیشنل کمپنیزسے اچھا معیار دے رہی ہو۔

جواب

واضح رہے کہ کمپنی جو اسکیم کی مد میں  مخصوص اسٹیکر کے واپس کرنے پر 100 یا 200 روپے دے رہی ہے،اس کی حیثیت کمیشن کی ہے،یعنی کمپنی خریدار کو یہ آفر کررہی ہے کہ آپ ہماری چیز خریدیں،تو  آپ کو 100 یا 200 روپے کی بچت ہوگی،لہذا مذکورہ ٹوکن اسی کی ملکیت ہے،جو یہ کین خریدے گا،اگر یہ کین صارف (گاڑی والا)خریدتا ہو،تو وہ حقدار ہوگا،نہ کہ مکینک ،اور اگر دکاندار یا مکینک کین خرید کر صارف کو کھلا آئل فروخت کرتا ہو،تو پھر دکاندار یا مکینک اس ٹوکن کا حقدار ہوتا ہے،جب گاڑی والے کے لیے آئل کاپورا کین خریدا جائے ،تو اس صورت میں گاڑی والے کو لاعلم رکھ کر مکینک کا وہ ٹوکن خفیہ طریقہ سے اپنے پاس رکھ لینا خریدار کے ساتھ خیانت ہے،جو کہ جائز نہیں ،کیوں کہ مکینک تو اپنی محنت کی پوری اجرت لیتا ہے،اور ٹوکن اس کی اجرت کا حصہ نہیں۔ ہاں اگر گاڑی والے کو آگاہ کرنے پر وہ اجازت دےتو کوئی حرج نہیں۔

لیکن اس میں مکینک کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ محض انعام کی خاطر کسٹمر کی گاڑی میں وہ آئل نہ ڈالے ،جب کہ اس کو معلوم ہو کہ یہ آئل اس کے لیے مناسب نہیں ۔

اسی طرح کمپنی کو بھی چاہیے کہ وہ انعام کی لالچ دے کر  پروڈکٹ کا معیار نہ گرائے ،بلکہ بہتر سے بہتر چیز بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرے،تاکہ لوگ انعام کی لالچ میں نقصان کا شکار نہ ہوں ۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے: 

"ولايضم أجرة الطبيب والرائض والبيطار، وجعل الآبق وأجرة السمسار تضم إن كانت مشروطةً في العقد بالإجماع، وإن لم تكن مشروطةً بل كانت موسومةً، أكثر المشايخ على أنها لاتضم، ومنهم من قال: لاتضم أجرة الدلال بالإجماع، بخلاف أجرة السمسار إذا كانت مشروطة في العقد".

(کتاب البیع، ج:7، ص:11، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:  

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة".

(کتاب الاجارۃ، ج:6، ص:63، ط:سعید)

بحوث فی قضایا فقھیة معاصرة میں ہے:

"ان النوع الاول من ھذہ الجوائز ماتمنح علی اساس القرعة ونحوھا لمشتری بضاعة مخصوصة او منتج مخصوص۔ فان کثیرا من التجار یعلنون جوائز یوزعونھا علی جملة منتخبة من المشترین الذین یشترون بضاعتھم، ویقع انتخاب المجازین اما عن طریق القرعة او علی اساس ارقام الکوبونات التی توضع مع البضاعة۔ فمن اشتری بضاعة حصل علی کوبون، فلو وافق رقم کوبونہ الرقم المنتخب للجائزة، استحق ان یحوز الجائزة المخصصة لذلک الرقم، وان حکم مثل ھذہ الجوائز انھا تجوز بشروط :
الشرط الاول : ان یقع شراء البضاعة بثمن مثلہ، ولایزاد فی ثمن البضاعة من اجل احتمال الحصول علی الجوائز۔ وھذا لانہ ان زاد البائع علی ثمن المثل، فالمقدار الزائد انما یدفع من قبل المشتری مقابل الجائزة المحتملة، فصارت الجائزة بمقابل مالی فلم یبق تبرعا، وان ھذا المقابل المالی انما وقع بہ المخاطرة فصارت العملیة قمارا۔
اما اذا بیعت البضاعة بثمن مثلھا، فان المشتری قد حصل علی عوض کامل للثمن الذی بذلہ ولم یخاطر بشیئ فالجائزة التی یحصل علیھا جائزة بدون مقابل فیدخل فی التبرعات المشروعة۔"

(کتاب البیوع، ج:2، ص:238، ط:دار العلوم کراتشی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لقوله صلى الله عليه وسلم «‌الخراج ‌بالضمان»."

(كتاب الاجارات، ج:4، ص:209، ط:دار الكتب العلمية)

الاصل لمحد بن الحسن میں ہے:

"إن ‌الربح ‌كله لرب المال."

(كتاب المضاربة، ج:4، ص:239، ط:دار ابن حزم)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں