بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نامرد کی بیوی کا خلع لینے کا حکم


سوال

اگر عورت عدالت میں خلع لینے کے لیے مقدمہ داخل کروائے اور اپنے شوہر پر یہ کیس بنائے کہ اس کا شوہر مرد نہيں، جب کہ اس کا شوہر مرد ہو، عدالت میں حاضر  نہ  ہو، اور عدالت اس کی خلع کروا دیتی ہے، تو  ایسی صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہيں؟  جب کہ مرد اور عورت  چار سال میاں بیوی کے خوش گوار تعلقات گزار چکے ہوں، بس ان سالوں میں اولاد نہ  ہوئی ہو۔

جواب

خلع کے درست ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، کسی ایک کے مطالبہ پر دوسرے کی رضامندی کے بغیر جو خلع کی ڈگری جاری کی جاتی ہے وہ شرعاً معتبر نہیں ہوتی اور اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، لہذا خلع کے عنوان سے نکاح کو ختم کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ کافی نہیں ہوا اور دونوں کا نکاح باقی رہا۔

پھر نامرد کی بیوی کے لیے اپنے شوہر سے خلاصی کا درست طریقہ یہ ہے کہ بیویاپنا معاملہ مسلمان قاضی /جج کی عدالت میں پیش کرے، قاضی واقعہ کی تحقیق کرےاگر  مرض قابلِ علاج ہو  تو اسے علاج کرنے کے لیے ایک سال کی مہلت دے، اگر وہ ٹھیک ہوگیا تو فسخ نکاح کا حق ختم ہوجائے گااور اگر وہ اس عرصہ میں ٹھیک نہ ہو اور بیوی دوبارہ نکاح ختم کرنے کا مطالبہ کرے تو قاضی شوہر سے کہے کہ اسے طلاق دے دو ، اگر وہ انکار کرے تو قاضی خود تفریق کردے، یہ تفریق شرعا طلاق بائنہ ہوگی، اگر مذکورہ طریقہ پر نامرد کی بیوی عدالت سے تفریق کروا لے تو نکاح ختم ہو جائے گا۔

(حیلہ ناجزہ،   صفحہ: 45-47،   طبع:دارالاشاعت)

واضح رہے کہ نامرد کی بیوی کو مذکورہ طریقے پر نکاح ختم کرانے کی اجازت اُس صورت میں ہے جب واقعۃً اُس کا شوہر نامرد ہو، اگر نکاح کے بعد شوہر ایک مرتبہ بھی حقِّ زوجیت کی ادائیگی کر چکا ہو تو بیوی کو کورٹ وغیرہ کے ذریعے اس نکاح کو فسخ کروانے کا حق نہیں ہوتا۔

نیز بیوی کو یہ اجازت اُس صورت میں ہے جب  نکاح سے پہلے اسے اپنے شوہر کے نامرد ہونے کا علم نہ ہو، اور  نکاح کے بعد شوہر  کے بارے میں معلوم ہونے پر اس نے اس شوہر کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہار بھی نہ کیا ہو، ورنہ اس کو نکاح ختم کروانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: من لايقدر على الجماع، فعيل بمعنى مفعول، جمعه عنن. وشرعًا: (من لايقدر على جماع فرج زوجته) يعني لمانع منه ككبر سن، أو سحر، إذ الرتقاء لا خيار لها للمانع منها خانية. (إذا وجدت) المرأة (زوجها مجبوبا) ، أو مقطوع الذكر فقط أو صغيره جدا كالزر، ولو قصيرا لا يمكنه إدخاله داخل الفرج فليس لها الفرقة بحر، وفيه نظر.وفيه: المجبوب كالعنين إلا في مسألتين؛ التأجيل، ومجيء الولد (فرق) الحاكم بطلبها لو حرة بالغة غير رتقاء وقرناء وغير عالمة بحاله قبل النكاح وغير راضية به بعده (بينهما في الحال) ولو المجبوب صغيرا لعدم فائدة التأجيل.

(قوله: وغير عالمة بحاله إلخ) أما لو كانت عالمة فلا خيار لها على المذهب كما يأتي، وكذا لو رضيت به بعد النكاح."

 (كتاب الطلاق، باب العنين، جلد:3، صفحہ:496-498، طبع: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و لو وجدته عنينًا) هو من لا يصل إلى النساء لمرض أو كبر، أو سحر ... (فإن وطئ) مرة فبها (و إلا بانت بالتفريق) من القاضي إن أبى طلاقها...

(قوله: و إلا بانت بالتفريق) لأنها فرقة قبل الدخول حقيقة، فكانت بائنة و لها كمال المهر و عليها العدة لوجود الخلوة الصحيحة، بحر."

 (كتاب الطلاق، باب العنين، جلد:3، صفحہ:496-498، طبع: سعید)

المحيط البرهاني ميں هے:

"وإذا وجدت المرأة زوجها عنینًا فلها الخیار، إن شاء ت أقامت معه کذٰلک، وإن شاء ت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة."

(کتاب النکاح، الفصل الثالث والعشرون،   العنین، جلد:4، صفحه: 238، طبع:  المجلس العلمي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں