اگر کسی مکان/ زمین کا اصل مالک لاپتہ ہو جائے یا مر جائے اور اس بات کو کافی عرصہ گزر جائے نہ اس کا کوئی وارث مل رہا ہو ،تو ایسی صورت میں کیا ہم اس کو اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں؟ خاص طور پر کسی رفاہی کام کے لیے، اور اگر کوئی تیسرا بندہ اپنے آپ کو مالک ظاہر کر کے قبضہ کرنے کی کوشش کرے اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ، یہ شخص مالک نہیں ہے اور ہم روکنے کی طاقت بھی رکھتے ہوں تو کیا ہمیں انہیں روکنا چاہیے؟ اگر ایسی زمین کا مالک بننے کی شرعاً کوئی صورت موجود ہو؟ اگر آپ کہیں کہ حکومت کی مدد سے کوئی صورت ممکن ہے تو سرکار کا حال آپ کو معلوم ہے ،اگر یہ زمین سرکار تک پہنچ گئی تو شاید اصل مالک کو بھی نہ ملے ،اس زمین کے حوالے سے مذکورہ کام کیے جا سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ جس زمین کے بارے میں یہ علم ہو کہ یہ کسی فرد کی ملکیت ہے،تو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر اس زمین کو کسی بھی طرح استعمال میں لینا، بیچنا ، قبضہ کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں،اور اگرزمین کا مالک انتقال کرچکا ہو یا کافی عرصہ سے لاپتا ہو(معلوم نہ ہو زندہ ہے یا مرگیا )توکسی ذریعہ سے اس کے ورثاء کی تحقیق کرکے،وہ زمین ان کے حوالہ کردی جائے،نیز اگر تحقیق و تلاش کے باوجود کسی وارث کا علم نہ ہوسکے اور ظنِ غالب ہوجائے کہ اس کا کوئی وارث بھی نہ ہوگا تو یہ بیت المال کو دیا جائے گااور آج کل بیت المال کےانتظام میں فساد کی وجہ سےاس کا مصرف بیت المال نہیں بلکہ فقراء ہیں،خواہ یہ فقراء مدارس کے طلبہ ہوں یا خانقاہوں کے مشائخ وصوفیاء ہوں یا مساجد کے ائمہ و خادمین ہوں ،تاہم ان کو بطورِ اجرت کے نہیں دی جائے گی،اسی طرح کسی غنی(مال دار) کو بھی نہیں دی جاسکتی،اس لیے کسی کی مملوکہ زمین کو خواہ اس کا مالک کا معلوم ہو یا معلوم نہ ہوسکے بہر صورت مالک کی اجازت کے بغیر اس کو اپنے زیر ِاستعمال لانا جائز نہیں ہے،
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین کے بارے میں متعلقہ حکومتی ادارے میں معلومات کی جائیں کہ یہ زمین کس کی ملکیت ہے، اور معلومات مل جانے پر مالک سے رابطہ کر کے اس سے زمین کے متعلق معاملات طے کئے جائیں ،مالک کی اجازت کے بغیر زمین میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا جائز نہیں،نیز مذکورہ زمین پر اگر کوئی شخص قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ کو یہ قدرت حاصل ہو کہ آپ اس جگہ کی حفاظت کر سکتے ہوں تو ایسا کرنا باعث ثواب ہوگا۔
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:27، ط:نور محمد كتب خانه)
وفیہ ایضاً:
(المادة 10) : ما ثبت بزمان يحكم ببقائه ما لم يوجد دليل على خلافه."
(المقدمۃ في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:17 ،ط:نور محمد كتب خانه)
صحیح مسلم میں ہے:
"قال رسول اللہ صلى الله عليه و سلم :من رأى منكم منكرا فغيره بيده فقد برئ،ومن لم يستطع أن يغيره بيده فغيره بلسانه فقد برئ ، و من لم يستطع أن يغيره بلسانه فغيره بقلبه فقد برئ، وذلك أضعف الإيمان ."
(باب بیان کون النھر عن المنکر، ج:1، ص:50، رقم:49، ط: دار الطباعۃ العامرہ)
ترجمہ:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی نے برائی دیکھی پھر اسے اپنے ہاتھ سے دور کر دیا تو وہ بری ہو گیا، اور جس میں ہاتھ سے دور کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس نے زبان سے دور کر دی ہو تو وہ بھی بری ہو گیا، اور جس میں اسے زبان سے بھی دور کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس نے اسے دل سے دور کیا ۱؎ تو وہ بھی بری ہو گیا اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101223
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن