بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نامحرم کے ساتھ دوستی رکھنے والی نافرمان بیوی کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟


سوال

 میری شادی کو 15سال ہوگئے ہیں میرے ماشاءالله سے 5بیٹے ہیں۔  میرا مسئلہ یہ ہے که میری بیوی میرا حکم نہیں مانتی ہے۔ میں اکیلا رہتا ہوں،  والدین کے ساتھ نہیں رہتا ، میری بیوی کی کسی غیر محرم سے دوستی ہے، اس کا   مجھے اپنے بیٹے سے پتا چلا ۔ کال پر بات کرتے ہوئے پکڑا اور ویڈیو کال بھی کی اور باہر بھی ملی، اس بات کو دو سال ہوگئے ہیں ۔ بیوی کے بھائی آئے مجھ سے معاف کرنے کا بولا ، میں نے اللّه کی رضا کے لیے کچھ پابندی کے ساتھ معاف کیا اور موبائل بھی لے لیا۔ اس کے بعد بھی ایک دفع بغیر بتائے باہر چلی گئی،  پھر معاف کیا اور گھر دوسری جگہ شفٹ کیا۔ اس کے کچھ وقت بعد برابر والوں سے موبائل لیکر پھر اس آدمی سے بات کی جس کا مجھے پتا چلا،  اس کے بعد اس کے بہن بھائی حیدرآباد لے گئے اپنے ساتھ یہ کہ پابندی میں نہیں رہ سکتی ہماری بہن ۔ دوسرے نمبر والے بیٹے کو ساتھ لے کر چلے گئے،  15دن ہوگئے ہیں اس بات کو۔ اب جانے کے بعد دوبارہ معاف کرنے کا پیغام بھیجا ہے، میں 3 بار معاف کر چکا ہوں؛  لہٰذا مجھے قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتایں میں کیا کروں ؟

جواب

جہاں تک ممکن ہو نباہ کی کوشش کرے؛ تاکہ اولاد  آزمائش میں نہ پڑیں، لیکن تمام تر کوششوں اور نصائح کے باوجود  بیوی باز نہیں آتی تو اگر آپ چاہے تو اس کو طلاق دے سکتے ہیں ، اس صورت میں آپ پر کوئی ملامت نہیں ہوگی۔ طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے پاکی کے زمانہ میں جس میں عورت سے صحبت نہ کی ہو، ایک طلاق دیدے اور عدت میں  قولی یا فعلی طور پر رجوع نہ کرے۔  عدت ختم ہوتے ہی وہ آپ کے نکاح سے بالکل علیحدہ ہو جائے گی۔ 

اعلاء  السنن میں ہے:

"وعند تفریط المرأۃ في حقوق اللّٰه تعالیٰ الواجبة علیها مثل الصلاة ونحوها أن تکون غیر عفیفة أو خارجة إلی المخالفة والشقاق مندوب إلیه". 

(إعلاء السنن: كتاب الطلاق، باب أن الطلاق أبغض الحلال عند الله تعالى إذا كان بغير حاجة (11/ 137)، ط. إدارة القرآن كراتشي، الطبعة الثالثة: 1415هـ)

نفع المفتی والسائل میں ہے:

"إذا اعتادت الزوجة الفسق، علیه الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، والضرب فیما یجوز فیه؛ فإن لم تنزجر لایجب التطلیق علیه؛ لأن الزوج قد أدی حق والإثم علیها، هذا ما اقتضاه الشرع، وأما مقتضی غایة التقویٰ فهو أن یطلقها، لکن جواز الطلاق إنما هو إذا قدر علی أداء المهر وإلا فلایطلقها".

(نفع المفتي والسائل: ما يتعلق بإطاعة الزوجات للأزواج وحقوقهم عليهن، وحقوقهن عليهم (ص: 49)، ط. المطبع المصطفائي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں