بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نامحرم کو شہوت کے چھونا اور اس کی بیٹی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے نامحرم کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اس کو شہوانی لذت پیداہوئی ، مگر اس وجہ سے شرم گاہ میں کسی بھی قسم کی کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی ، لیکن ہاتھ ملاتے وقت یہ  نیت تھی کہ مزا  آئے گا اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت قائم ہوگی یا نہیں ؟ کیوں کہ مذکورہ شخص کے لیے اس عورت کی بیٹی کا رشتہ آیاہے کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص کسی  مشتہاۃ (قابلِ شہوت یعنی کم از کم نو سال کی ہو) عورت کو  چھوتا ہے تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، لہذا اس شخص پر اس عورت کے اور اس عورت پر اس مرد کے  اصول و فروع حرام ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ مس (چھونے) کے وقت یا نظر (شرم گاہ کی طرف دیکھنے) کے وقت ہی شہوت پائی جائے  اگر اس وقت شہوت نہیں تھی، بلکہ بعد میں شہوت ابھری تو حرمت ثابت نہیں ہوگی، نیز شہوت پیدا ہونے کی کوئی معتبر علامت پائی جائے اور اگر پہلے سے شہوت موجود ہو تو چھوتے وقت یا شرم گاہ کو دیکھتے وقت شہوت مزید بڑھ جائے ، اور شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو ، اگر درمیان میں کوئی کپڑا حائل ہوتو اتناباریک ہوکہ جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو، ورنہ حرمت ثابت نہیں ہوگی اور شہوت کے ساتھ چھونے، بوسہ دینے یا شرم گاہ کو دیکھنے کی وجہ سے انزال نہ ہوا  ہو ،لہذا مذکورہ شخص کاعورت  کو شہوت سےچھوتے وقت ذکرکردہ  شرائط پائی جاتی ہوں تو اس شخص کا اس عورت  کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی اس صورت میں جس عورت کو چھوا ہے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست ہوگا ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي.

(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ.

(قوله: وناظرة) أي بشهوة (قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر. (قوله: المدور الداخل) اختاره في الهداية وصححه في المحيط والذخيرة: وفي الخانية وعليه الفتوى وفي الفتح، وهو ظاهر الرواية لأن هذا حكم تعلق بالفرج، والداخل فرج من كل وجه، والخارج فرج من وجه والاحتراز عن الخارج متعذر، فسقط اعتباره، ولا يتحقق ذلك إلا إذا كانت متكئة بحر فلو كانت قائمة أو جالسة غير مستندة لا تثبت الحرمة إسماعيل وقيل: تثبت بالنظر إلى منابت الشعر وقيل إلى الشق وصححه في الخلاصة بحر (قوله: أو ماء هي فيه) احتراز عما إذا كانت فوق الماء فرآه من الماء كما يأتي (قوله: وفروعهن) بالرفع عطفا على أصل مزنيته، وفيه تغليب المؤنث على الذكر بالنسبة إلى قوله وناظرة إلى ذكره (قوله: مطلقا) يرجع إلى الأصول والفروع أي، وإن علون، وإن سفلن ط".

(کتاب النکاح، فصل فى المحرمات، ج:3، ص:33، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں