بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نامحرم خاتون کے سر پر ہاتھ رکھنے کا حکم


سوال

اگر فتنے کا خوف نه ہو، تو کیا کسی بڑی عمر کے بزرگ عالم کا فاحشہ عورتوں پر شفقت کا  ہاتھ رکھ کر سامنے  بٹھا کر وعظ و نصیحت کرنا جائز ہے؟  اگر جائز ہے تو کیا دلیل ہے؟  برائے کرم وضاحت فرما دیں!

جواب

 اسلام کی رُو سے کسی مرد کا اجنبی عورت یا اجنبی عورت کا نامحرم مرد کو چھونایا دیکھنا جائز نہیں ہے، یہ واضح شرعی حکم ہے، جو ہر مسلمان مرد اور عورت کو معلوم ہے، مختلف احادیث میں نامحرم خواتین کو چھونے پر سخت وعیدیں آئی ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"وَعَن معقل بن يسَار رَضِي الله عَنهُ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لأَن يطعن فِي رَأس أحدكُم بمخيط من حَدِيد خير لَهُ من أَن يمس امْرَأَة لَا تحل لَهُ.رَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَرِجَال الطَّبَرَانِيّ ثِقَات رجال الصَّحِيح".

(الترغيب والترهيب للمنذري، كتاب النِّكَاح وَمَا يتَعَلَّق بِهِ، رقم الحدیث:2938، ج:3، ص:26، ط:دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا سر  لوہے  کے کنگن سے زخمی کردیا جائے یہ زیادہ بہتر ہے اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو  چھوئے۔"

خود آپ ﷺ نے زندگی بھر کسی بھی موقع پر اجنبی خاتون کو نہیں  چھویا، یہاں تک کہ بیعت جیسے اہم ترین موقع پر بھی آپ ﷺ  بنا ہاتھ  ملائےخواتین سے اسلام پر بیعت لیتے تھے، جیسے کہ حدیث شریف میں خواتین سے بیعت لینے کی کیفیت سے متعلق حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

"أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة رضي الله عنها، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: كانت المؤمنات إذا هاجرن إلى النبي صلى الله عليه وسلم يمتحنهن بقول الله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا، إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن} [الممتحنة: 10] إلى آخر الآية. قالت عائشة: فمن أقر بهذا الشرط من المؤمنات فقد أقر بالمحنة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أقررن بذلك من قولهن، قال لهن رسول الله صلى الله عليه وسلم: «انطلقن فقد بايعتكن» لا و الله ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امرأة قط، غير أنه بايعهن بالكلام، والله ما أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم على النساء إلا بما أمره الله، يقول لهن إذا أخذ عليهن: «قد بايعتكن» كلامًا."

(صحیح البخاری،باب إذا أسلمت المشركة أو النصرانية تحت الذمي أو الحربي، رقم الحدیث:5288، ج:7، ص:49، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین کا سورہ تحریم کی آیت کے مطابق امتحان لیتے، ( کہ وہ کہیں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور مقصد سے تو ہجرت کرکے نہیں آئیں) جب وہ امتحان پر پوری اتر آتیں تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے کہ میں نے تمہیں زبانی بیعت کرلی ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بخدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں بھی کسی خاتون کو ہاتھ نہیں لگایا۔"

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ ممتحنہ میں آپ ﷺ کو  ایسی خواتین کو  بیعت کرنے کا حکم دیا ہے اور عرب میں بیعت کا مطلب یہی تھا کہ کسی بڑے کے  ہاتھ  میں ہاتھ  دے کر  وفاداری کا پختہ عہد کیا جائے، جیساکہ صلح حدیبیہ کے موقع کی بیعت کا ذکر سورۃ الفتح میں موجود ہے، اور وہاں دستِ مبارک پر بیعت قرآنِ کریم کے اشارے اور روایات کے تواتر سے یقینی طور پر ثابت ہے،  اس کے باوجود خواتین کو بیعت کرتے وقت صراحت فرمانا کہ میں نے تمہیں زبانی کلامی بیعت کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قسم اٹھا کر تصریح فرمانا کہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک نے کبھی بھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، یہ سب باتیں صرف آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ کے بیان کے لیے نہیں ہیں، ورنہ حکمِ ربانی کی تعمیل میں، یا کم از کم بیانِ جواز کے لیے رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ تو اس پر عمل فرماتے۔

لہذا کسی بھی غرض سے نامحرم بالغہ یاقریب البلوغ خاتون کے سرپر ہاتھ رکھنا یا پردے  کی حدود کا خیال رکھے بغیر کسی خاتون کو سامنے بیٹھاکر وعظ کرنا جائز نہیں ہے، ہاتھ  رکھے بغیر ہی خیر و برکت کی دعا دے دی جائے، اور پردے کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے وعظ ونصیحت کی جائے۔

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"يَحْرُم النَّظَر بِشَهْوَةٍ إِلَى كُلّ آدَمِيّ إِلَّا الزَّوْج لِزَوْجَتِهِ وَمَمْلُوكَته وَكَذَا هُمَا إِلَيْهِ ، وَإِلَّا أَنْ يَكُون الْمَنْظُور إِلَيْهِ أَمْرَد حَسَن الصُّورَة فَإِنَّهُ يَحْرُم النَّظَر إِلَيْهِ إِلَى وَجْهه وَسَائِر بَدَنه سَوَاء كَانَ بِشَهْوَةٍ أَوْ بِغَيْرِهَا إِلَّا أَنْ يَكُون لِحَاجَةِ الْبَيْع وَالشِّرَاء وَالتَّطَبُّب وَالتَّعْلِيم وَنَحْوهَا . وَاَللَّه أَعْلَم ."

(باب الاسراء برسول الله صلي الله عليه وسلم، ج:2، ص:217، ط:داراحياء التراث العربى)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ میں ہے:

"وَلَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَمَسَّ وَجْهَهَا وَلَا كَفَّهَا وَإِنْ أَمِنَ الشَّهْوَةَ لِوُجُودِ الْمُحَرَّمِ وَلِانْعِدَامِ الضَّرُورَةِ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { : مَنْ مَسَّ كَفَّ امْرَأَةٍ لَيْسَ لَهُ فِيهَا سَبِيلٌ وُضِعَ عَلَى كَفِّهِ جَمْرٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ } قَالَ فِي التَّتَارْخَانِيَّة : أَصَابَ امْرَأَةً قُرْحَةٌ فِي مَوْضِعٍ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ النَّظَرُ إلَيْهِ فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ امْرَأَةٌ تُدَاوِيهَا وَلَمْ يَقْدِرْ أَنْ يُعَلِّمَ امْرَأَةً تُدَاوِيهَا يَسْتُرُ مِنْهَا كُلَّ شَيْءٍ إلَّا مَوْضِعَ الْقُرْحَةِ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا أَمْكَنَ وَيُدَاوِيهَا وَفِي الْمُحِيطِ أَيْضًا."

(كتاب الكراهية، فصل فى النظر والمس، ج:8، ص:219، ط:دارالكتاب الاسلامى) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144212201341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں