بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی جائیداد میں سے بھائی کا بھائی کو دینے کے بعد بھائی کا زائد حصہ کا مطالبہ کرنا


سوال

 میرے والد جوکہ حیات ہیں ، والد نے1987 میں ایک پلاٹ خریدا 5 لاکھ روپے کا، جس کو خریدنے کے لیے والد نے والده کا زیور بیچا اورباقی پیسے والد نے اپنے سالے اور والد کے چچا سے ادھار لیے، پلاٹ لینے کے بعد ایک کچی دکان بنائی گئی، جس میں میرے والد نے پینٹ اورسینیٹری کا سامان ڈلوایا،اس سے پہلے ابو نے ہمارے چچا کو کرائے کی  ایک دکان کروا کر دی، جس میں ہارڈویئراورالیکٹرک کا سامان ڈلوایا، چچا ہمارے چھوٹے تھے ،ابو نے بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے دکان کروائی،جوپلاٹ ابو نے لیا وه ابو کے نام پر ہی ہے، جگہ بڑی ہونے کی وجہ سے ابو نے چچا کو دکان میں بلا لیا کہ ایک جگہ ہو جائیں گے ،اور اس طرح ہارڈویئر الیکٹرک پینٹ اور سینیٹری 4 آئٹم ہوگئے، 1987 سے دکان چلی اور ابو نے 1991 میں پلاٹ پر گھر تعمیر کروایا جو گراؤنڈ پلس ٹو ہے اور گراؤنڈ پر آدھے حصے میں دکان بنائی، اور والد نے بہت محنت کی اس گھرکو بنانے میں دکان سے ہی پیسہ لگا اور جو پلاٹ لیتے ہوئے پیسے ابو نے ادھارلیے تھے وه دکان سے ہی اترے، اس دکان میں چچا کا کچھ بھی نہیں لگا تھا، اور پیسوں کا حساب نہ تھا آمدنی پر روک ٹوک نہیں تھی، چچا کو جتنے پیسے چاہیے ہوتے وه لے لیتے ،اس کے بعد ہمارے چچا کی شادی ہوئی اس کا خرچہ دکان سے ہوا اور زیور بھی دکان سے بنا جو کہ 20 سے25 تولہ تھا ،چچا کی شادی پر ہماری دادی نے ہماری چچی کے گھر والوں سے یہ کہا کہ گھر اور دکان میں دونوں کا برابر حصہ ہے ،دادی کا ہماری انتقال ہوگیا ہے ، دادی کی اس بات پروالد صاحب نے 2011 میں ہمارے پھوپھا کے سامنے یہ بات رکھی کہ میں دوکان کا ایک حصہ ان کو الگ کر دیتا ہوں ،جس کی  پیمائش تقریبا 25 فیصد ہے ،اور گھر میں پورا دوسرا فلوران کے حوالے کردیا اور کہا کہ تمہیں دے دیا، اور جو چچا کا سامان تھا الیکٹرک اور ہارڈویئرکا وه ان کو دے دیا ،اور اس طرح ہمارے پاس پینٹ اورسینیٹری واپس آگیا، جب یہ ساری بات ہوئی اس کا کوئی تحریری ثبوت نہیں، اور چچا ہمارے یہ بھی مان رہے ہیں  کہ ہاں یہ بات ہوئی تھی۔  اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی دکان کرائے پر دینی ہے تو چچا کا کہنا ہے کہ دکان مجھے آدھی چاہیے، اورجب والد نے 2011میں دکان میں دیوار اٹھوائی اور ان کو دکان الگ کرکے دی جب چچا نے یہ بات نہیں کی تھی کہ مجھے دکان آدھی چاہیے ، اب اس مسئلے میں ہماری ان چیزوں کے بارے میں راہ نمائی فرمائیے دکان اور گھر میں چچا کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

دوسرا یہ کہ دادی نے جو چچا کی شادی پہ کہا کہ گھر اور دکان میں دونوں کا آدھا ہے اس بات کی کیا اہمیّت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعتًا  مذکورہ دکان اور اس پر بنائے گئے گھر میں سائل کے چچا نے رقم نہیں ملائی تو یہ گھر سائل کے والدکا  تھا، لیکن جب سائل کے والد نے اپنی  زندگی  میں  چچا کو دکان میں سے 25فیصدکو دیوار لگا کر   ، اور گھر کا دوسرا فلور  مالکانہ حقوق کے ساتھ حوالہ کردیا  تو  دکان  کا  یہ حصہ اور دوسرا فلور   چچا کا ہے، اس میں کسی اور کا حق نہیں ہے،اس کے علاوہ  جو دکان اور گھر کا بقیہ حصہ ہے  وہ سائل کے والد کا ہی ہے،لہذا اس میں چچا کا حصہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،نیز دادی کا کہنا گھر اور دکان دونوں میں دونوں کا آدھا حصہ ہے اس بات کا  شرعًا کوئی اعتبار نہیں۔

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"و منها أن يكون الموهوب مقبوضًا حتى لايثبت الملك للموهوب له قبل القبض."

(كتاب الهبة،الباب الأول تفسير الهبة وركنها،ص:374،ص:4،ط:رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں