میرے کل چار بیٹے ہیں، دو بیٹوں کو شریعت مطہرہ کی ہدایت کے مطابق تعلیم و تربیت دی ہے، دونوں بیٹوں کی شادی کا خرچہ بھی میں نے ادا کیا، ان کو رہنے کے لیے جگہ اور مکان بھی دیا، حال یہ ہے کہ یہ دو بیٹے بہت نافرمان ہیں، والدین کو بہت تنگ کرتے ہیں، مزید جائیداد کا مطالبہ بھی کرتے ہیں، یہ گاؤں میں ہیں، میری اہلیہ بھی گاؤں میں ہے، اپنی والدہ کو بھی گالم گلوچ کرتے ہیں، مار پیٹ بھی کرتے ہیں، میں نے ان کے ساتھ مزید تعاون کیا، ایک بیٹے کو بارہ لاکھ اسی ہزار دیے، دوسرے کو گاڑی لے کر دی؛ تا کہ ان کے معاش کا بندوبست ہو سکے۔
سوال یہ ہے کہ ایسی اولاد کا شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے؟ والدین کے لیے شرعی ہدایات کیا ہیں؟ ان کا مزید جائیداد کا مطالبہ کرنا کیسا ہے؟
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ایذا رسانی حرام اورکبیرہ گناہ ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے، اور والدین کی نافرمانی، ان کے ساتھ بدکلامی کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]
ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا، پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)
ایک حدیث میں ہے:
"عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول، ص: 419، ط: قدیمی)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں(کبھی کبھار تو حقیقت میں بھی کوئی جاہل شخص اپنے ماں باپ کو گالی بک دیتا ہے، اور یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ماں باپ کو اگرچہ حقیقۃً خود گالی نہیں دیتے مگر ان کو گالی دینے کا سبب ضرور بنتے ہیں اور وہ اس طرح کہ) اگر کوئی شخص کسی کے باپ کوگالی دیتا ہے تووہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔
(مظاہر حق، ج:4، صفحہ: 468،ط: دارالاشاعت)
ملاحظہ کیجیے کہ دوسرے کے والدین کو گالی دینا جو اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب ہے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا جارہاہے، پھر براہِ راست اپنے والدین کو خود گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہوگا!! اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حیرت سے سوال کیا کہ کیا کوئی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ص: 421، ط: قدیمی)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والا ہے، یعنی: اس نے ماں باپ کے حقوق ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی ہے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو کہ جس کی اس نے اطاعت اور فرمانبرداری کی ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے، اور جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہے( یعنی: اس نے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور تقصیر کر کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی ہے) تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں، اور اگر ماں باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو کہ جس کی اس نے نافرمانی کی ہے تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے۔ یہ ارشاد سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نے کریں،اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نے کریں،اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم ہی کیوں نہ کریں۔
(مظاہر حق، ج: 4، صفحہ: 486، ط: دارالاشاعت)
دیکھ لیجیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تعلیم ارشاد فرمائی؟ والدین خواہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں، اولاد کا کام ان کا احتساب یا اصلاح نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں بھی اولاد کا فرض ان کی اطاعت ہے، والدین سے ان کا رب خود حساب لے لے گا، لیکن اس صورت میں اولاد نافرمانی کرے گی تو وہ اللہ کے ہاں غضب کی مستحق ہوگی، اور اس کے لیے جہنم کا دروازہ کھل جائے گا۔
"عن أبي أمامة، أنّ رجلا قال: يا رسول اللّه، ما حق الوالدين على ولدهما؟ قال: «هما جنتك ونارك»".
(مشکاۃ المصابیح، باب البر والصلۃ، ج: 2، ص: 421، ط: قدیمی)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ماں باپ تمہارے لیے جنت بھی اور دوزخ بھی۔
(مظاہر حق، ج:4، صفحہ: 485، ط: دارالاشاعت)
اولاد کو مذکورہ احادیث سنائی جائیں، شفقت و محبت سے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے، ان کی ہدایت کے لیے اللہ کے حضور رو رو کر دعا کی جائے، اللہ والوں اور صالحین کی مجالس میں بھیجا جائے، ان کی مجالس میں شریک ہونے اور بیانات سننے سے اصلاح کی قوی امید ہوتی ہے۔
اولاد کے نافرمان ہونے کی صورت میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روزانہ ہر نماز کے بعد یہ آیت "وَأَصْلِحْ لِى فِى ذُرِّيَّتِى إِنِّى تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ " (الاحقاف:15) پڑھا کریں اور لفظ "ذُرِّيَّتِى"پر اپنے بچے كا تصور كريں، ان شاءاللہ لڑکا صا لح ہوجائے گا ۔
(اعمال قرآنی مؤلفہ حکیم الامت ،31 ؛ مکتبہ دارالاشاعت)
باقی اگر آپ کی اولاد آپ سے جائیداد کا تقاضا کرتی ہے تو ان کا تقاضا پورا کرنا آپ پر لازم نہیں، آپ اپنی حیات میں اپنی جائیداد کے خود مالک ہیں، کسی کو اس کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں، تاہم گر اپنی خوشی سے اپنی اولاد کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں،تاہم اولاد میں برابری ضروری ہے، بلا وجہ کسی کو کم دینا اور کسی کو زیادہ دینا درست نہیں۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً ، فقال : «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال : لا قال : «فأرجعه» و في رواية ... قال : «فاتقوا الله و اعدلوا بين أولادكم»."
(مشکاۃ المصابیح ، باب العطایا ، 1/ 261 ، ط : قدیمی)
ترجمہ:" حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا: ”نہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"
(مظاہر حق، باب العطایا، 3/ 393، ط: دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101280
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن