بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کا حکم


سوال

میں نے 2015 میں اپنے والدین کی نافرمانی کرکے شادی کی تھی ، لڑکی والوں نے میری غربت کے باوجود 10 لاکھ روپے مہر مقرر کیا اور میری عقل پر پردہ پڑگیا تھا میں نے اس وقت قبول کرلیا  لیکن شادی کے  بعد سے بیوی ایک مرتبہ بھی میرے گھر نہیں آئی ، میں جب پاکستان آیا تو اپنے سسرال جاکر ٹھہرا اور اس دوران  ہمارے درمیان جسمانی تعلق بھی قائم ہوا ، لیکن میں مستقل باہر ملک میں رہتا  ہوں اور باقاعدگی سے خرچہ بھی بھیجتا رہاہوں ، گذشتہ 5 ماہ سے بیوی کی نافرنانی بہت  زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں بھیجا لیکن ارادہ یہ  ہے کہ ماہانہ 5000 کے حساب سے ادا کرونگا ۔

میرے والدین دونوں بیمار ہیں والدہ کو فالج  ہے اور والد صاحب دل کے مریض ہیں میں نے بہت کوشش کی کی میری بیوی میرے والدین کے پاس میرے گھر میں رہے  کیونکہ وہاں تمام سہولیات موجود ہیں ، کا م کے لئے نوکرانی بھی ہے اور والدین کی خدمت کے لئے مستقل ایک تیمار دار بھی موجود ہے لیکن اس کے باوجود  میری بیوی آنے کے لئے تیار نہیں ،  چھ سال سے مجھے پریشان کیا ہو اہے نہ میری عزت کرتی ہے اور نہ سچ بولتی ہے ، کبھی کہتی ہے کہ حمل سے ہے اور کبھی کہتی ہے کہ حمل ضائع ہوگیا اور اب میرا فون بھی بلاک کردیا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ میں نے اب تک مہر ادانہیں  کیا (جبکہ مہر معجل تھا) تو ایسی صورت میں مجھے اپنی بیوی کو اپنےگھر  لانے کا حق ہے یا نہیں ؟ اور اگر وہ نہیں آتی تو کیا میں دوسری شادی کرسکتا ہوں یا نہیں ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں نکاح کے وقت لڑکی والوں نے دس لاکھ روپے مہر مقرر کیا ،اور سائل نے اسے  قبول کرلیا ،اور مہر بھی معجل تھا، تو اب سائل پر اس دس لاکھ روپے مہر کی ادائیگی لازم ہے ، مہر کی ادائیگی تک عورت شوہر کو اپنےپر قدرت نہ دے یا مہر کی وصولیابی تک اپنی والدہ کے گھر رہ جائے اور شوہر کے گھر نہ آئے تو یہ اسکا حق ہے ، شوہر مہر ادا کردے  اور پھر بھی بیوی شوہر کے گھر نہ آئے ،اس کے حقوق ادا نہ کرے تو گناہ گار ہوگی ، اگر مہر کے علاوہ شوہر باقی حقوق ادا کررہا ہو تو بیوی کو بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ۔

2۔ اگر سائل کی اہلیہ اپنا مہر وصول کیے بغیر آنے پر راضی نہیں ہے ،اور اس وقت سائل کے پاس دس لاکھ روپے نہیں ہیں کہ پہلے  بیوی کا مہر ادا کرسکے ، تو پہلے بیوی کو کچھ  مہر ادا کرکے راضی کرنے کی کوشش کرے، بقیہ مہر کی ادائیگی کے لئے مہلت لےلے ، اگر بیوی اس پر راضی نہ ہو تو سائل اگر دوسری بیوی کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہے تو شرعا دوسری شادی کرنا جائز ہے اگرچہ پہلی بیوی راضی نہ ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

﴿ الفصل الحادی عشر فی منع المرأۃ نفسھا لِاستیفاء المعجل لھا ذلک عندہ)

( مطبوعہ نولکشور /۲ ۳۸۔) 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

وللمرأۃ أن تمنع الزوج من الدخول بھا حتی یوفیھا جمیع المھر۔

(وفی الخلاصۃ : یعنی المعجل، الفتاویٰ التاتار خانیۃ /۴ ۱۹۰ ﴾ 

 اللہ  تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ۔ [النساء: ۳]

(فتاوی دارالعلوم ۷/ ۵۱)

درالمختار میں ہے:

  وصح  نکاح اربع من الحرائر  والا ماء  فقط للحر لا اکثر

(الدر المختار علی ہامش رد المحتار باب المحرمات ص ۴۰۰ ج ۲۔ط۔س۔ج۳ج۳ص۴۸) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں