بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نا فرمان اولاد اور دیگر مسائل کے حل کی راہ نمائی


سوال

میں ایک بیوہ خاتون ہوں، تین بچے  جو  ساتویں پانچویں اور تیسری کلاس میں پڑھتے تھے کہ میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ، بچوں کی دین و دنیا کی تعلیم  میں کراتی رہی،  بچے  نمازی تو  ہیں، مگر عشاء اور فجر کی نماز میں سستی کرتے ہیں ، ہماری جائیداد کے شروع سے خاندان کے ساتھ تنازعے رہے ہیں اور کچھ کو قتل بھی کر دیا گیا ہے، جب کہ میرے شوہر بیماری میں انتقال کر گئے،  شوہر کی وفات کے بعد مجھ سے خالی کاغذات (blank documents ) پر دستخط لے لیے اور زمین ہتھیا لی گئی،  میں ٹیچنگ کرتی ہوں، اور اب ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے،  میرے بچے مجھ سے خرچہ وغیرہ لے لیتے ہیں اور   دوستوں میں اڑا لیتے ہیں،  میں بچوں کو ( جو ابھی بالغ ہو گئے ہیں، اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں) ملازمت اور شادی کے لیے ترغیب دیتی ہوں تو بچے ملازمت کے خواہاں ہیں مگر ملازمت ڈھونڈنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اکثر اوقات کہتے ہیں کہ بس امی ہمیں ہم پر چھوڑ دیں،  نہ ہم ملازمت کرتے ہیں اور نہ ہی شادی کی ضرورت ہے،  ان کا ذہن ان مقدمات اور تنازعے میں بگڑ گیا ہے اور انہوں نے اس کابہت اثر لیا ہے،  ملازمت اور شادی کے نام سے غصہ میں آ جاتے ہیں، اور گھر میں موبائل وغیرہ میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں، اس لیے اب میں بھی ان کو اس رویے پر نصیحت کرنے سے رک گئی ہوں،  گھر کی چھتیں ٹپک رہی ہیں اور ان کو ٹھیک کرنے والا کوئی نہیں  ہے،  ایک بچے کی منگنی ہو چکی ہے، مگر اس جگہ میں اس کی شادی کرنے یا نہ کرنے کے مخمصے   میں الجھی ہوئی ہوں،  دین دار لوگ میرے حالات سنتے ہیں تو جادو کا اثر بتاتے ہیں،  میں وظائف بھی بہت پڑھتی رہتی ہوں، مگر مسئلے حل ہوتے نظر نہیں آتے،  براہ کرم کچھ رہنمائی اور مسئلہ کا حل بتائیں ۔

جواب

ہر تکلیف و آزمائش اور سہولت وخوشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،  اس لیے پریشانیوں اورمصائب کا حل رجوع الی اللہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا، اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ و استغفار کے ذریعے   متوجہ ہوکر اپنے مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیجیے،   اس کے ساتھ آپ  کو چاہیے کہ اولاد  کو پیار محبت سے نماز کی ترغیب دیں  اور کوشش کریں  کہ  آپ کے بچے   نیک  نمازی دوستوں کی صحبت اختیار کریں، اس کے ساتھ   تہجد کے وقت ورنہ مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت صلاۃ الحاجۃ کی نیت سے پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے صدقِ دل سے اولاد کی اطاعت و فرماں برداری کی اور مسائل کے حل کی  دعا کریں ،نیز  ہر نماز کے بعد (وَ أَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّیَّتِيْ اِنِّيْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)پڑھے ، پڑھتے وقت "ذُرِّیَّتِيْ"  کے لفظ پر اپنی اولادکا خیال رکھیں ، ان شاء اللہ اولاد فرماں بردار ہوجائے گی، اور مسائل بھی حل ہو جائیں گے، تاہم اس حوالے سے  اس بات کا  ضرور خیال رکھا جائے کہ مایوسی کی بات زبان سے نہ نکلے، کیوں کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ :

"نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تک آدمی کسی گناہ یا قطع رحمی اور قبولیت میں جلدی نہ کرے اس وقت تک بندہ کی دعا قبول کی جاتی رہتی ہے،  عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول جلدی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کہے كه میں نے دعا مانگی تھی میں نے دعا مانگی تھی لیکن مجھے میری دعا قبول ہوتی نظر نہیں آتی،  پھر وہ اس سے ناامید ہو کر دعا مانگنا چھوڑ دیتا ہے۔"

"عن ‌أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: « لا يزال يستجاب للعبد ما لم يدع بإثم، أو قطيعة رحم، ما لم يستعجل قيل: يا رسول الله ما الاستعجال؟ قال: يقول: قد دعوت وقد دعوت، فلم أر يستجيب لي فيستحسر عند ذلك، ويدع الدعاء .»"

(صحيح مسلم، ‌‌كتاب الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار، ج:8، ص:87، رقم : 2735، ط: دار المنهاج)

اور یہ بھی واضح رہے کہ اولاد کا آپ کے ساتھ  غیر ذمہ دارانہ رویہ  اور آپ کی نا فرمانی غلط ہے، اعلی تعلیم حاصل کر لینے کے بعد اس عمر میں تو شرعاً ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنی والدہ  کی خدمت کریں ، ان کا خرچہ اٹھائیں  اور گھر کے انتظامات وغیرہ سنبھالیں ،  لہٰذا ان پر لازم ہے کہ اپنے اس رویہ کی اصلاح کریں ، اور اب تک جو کوتا ہی ہو چکی ہے اس پر اپنی والدہ سے معافی مانگیں اور استغفار کریں،اور آئندہ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ،بصورت دیگر گناہ گار ہوں گے ۔

"شرح مختصر الطحاوي للجصاصؒ "میں ہے:

"وأما نفقة الأم، فإنها لزمته في حال الفقر، لقوله تعالى: {وصاحبهما في الدنيا معروفا}، ولم يفرق بين حال الفقر والغنى، فإذا أمكنه سد جوعتها، لزمه ذلك.

وأما الابن، فإنه لا يجبر في حال الفقر على نفقة أبيه إذا كان سليما لا زمانة به؛ لأنه يمكنه السعي للكسب والنفقة على نفسه، كما يسعى الابن الكبير،والأم ليست كذلك، إذ ليس لها نهوض لكسب."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب النفقة على الأقارب والزوجات والمطلقات، ج:5، ص:309، ط:دار البشائر الإسلامية)

'اعمالِ قرآنی' میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ نے لکھا ہے:

’’(اولاد فرماں بردار هو)  : وَ أَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّیَّتِيْ اِنِّيْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (احقاف:15)،خاصیت: جس کی اولاد نافرمان ہو، وہ اس آیت کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرے، ان شاء اللہ تعالی صالح ہوجائے گی،پڑھنے کے وقت   "ذُرِّیَّتِيْ "  کے لفظ پر اپنی اولادکا خیال رکھے۔‘‘

(ص:30،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں