بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ سامع کے بارے میں چند شرعی احکام کی تفصیل


سوال

اگر تراویح میں دو سامع ہوں  اور غلطی کے وقت وہ ایک دوسرے کو کہنی ماریں کہ آپ غلطی بتاؤ تو کیا ان کی نماز ہو جاۓ گی ؟

اور اگر امام ان کا لقمہ لے لے تو کیا امام کی نماز فاسد ہو جاۓ گی ؟

اسی طرح اگر سامع امام کے ساتھ ہی قراء ت کر رہا ہو تو کیا اس کی نماز ہو جاۓ گی ؟

نوٹ :سامع نا بالغ ہے۔

جواب

واضح رہے اگر امام سے قرآن پڑھنے میں بھول ہوجائے تو سامع  لقمہ دے سکتا ہے، لقمہ دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ امام مزید التباس اوراشتباہ میں نہ پڑ جائے، یعنی اگر امام صحیح طور پر پڑھنے کی کوشش کررہا ہو تو اولاً اس کو موقع دیا جائے، لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے،  اگر امام پھر بھی نہ پڑھ سکے تو لقمہ دیا جائےاور اگر سامع مقرر ہے تو وہ ہی غلطی بتائے، اس طرح اگر دو سامع ہیں،تو بالترتیب ایک سامع دیا کرے اور اگر اسے یاد نہ ہو تو پھر دوسرا لقمہ دے دیا کرے  ۔

اگر تراویح میں دو سامع ہوں  اور غلطی کے وقت وہ ایک دوسرے کو کہنی ماریں کہ آپ غلطی بتاؤ تو  اس حرکت سے ان کی نماز  فاسد نہ ہوگی ،نمازہو جاۓ گی ، البتہ  ایسا کرنانماز کے خشوع وخضوع کے خلاف ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جب وہ مقتدی ہو امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو،تو امام کا ان کا لقمہ لینے سے نماز فاسد نہ ہوگی۔

نیز امام کے پیچھے مقتدی(خواہ سامع ہو یا غیر سامع)کے لیے کی  قراءت کرنا  جائز  نہیں،  اس سے اجتناب کیا جائے ،البتہ اگر   کسی نے ایسا کیا،تو نماز ہو جائے گی۔

نیزنابالغ کے  لیے لقمہ دینا اور امام کے لیے اس کا لقمہ لینا دونوں درست ہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ."(الأعراف :204)

ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جایا کرے،تو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہو،امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة."

( كتاب إقامة الصلوة والسنة فيها، باب: إذا قرأ الإمام فأنصتوا، ج: 1،ص :277، ط:دارإحياء الكتب العربي)

ترجمہ:" حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قراءت اس کی بھی قراءت ہے۔"

صحیح مسلم میں ہے:

"عن حیطان بن عبد الله الرقاشي قال: صليت مع أبي موسي الأشعري ... أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ فأنصتوا..."

( كتاب الصلوة، باب التشهد في الصلاة،ج :2، ص :114 ،ط:دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:" حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو بالکل خاموش رہو ۔۔۔ الخ"

"تنویر الأبصار مع الدر المختار" میں ہے

"(والمؤتم لايقرأ مطلقاً) ولا الفاتحة...( فإن قرأ كره تحريماً) و تصح في الأصح...الخ ."

( كتاب الصلوة ،باب صفبة الصلاة،  مطلب السنة تكون سنة عين و سنة كفاية ، ج:1 ،ص :544 ،ط :سعيد)

"شرح أبي داود للعيني "میں ہے:

"قوله: " فما يَمنعك" أي: من الفَتْح؛ وهذا فيه تصريح على جواز الفتح على إمامه، وتقييد بأن الفتح إنما يجوز إذا كان ممنْ هو في صلاته."

(کتاب الصلواۃ ،باب النھي  عن التلقین، ج:4، ص: 131،ط:مکتبة الرشد ریاض)

"المبسوط للسرخسي"میں ہے:

"والفتح على الإمام لا يفسد الصلاة) يعني المقتدي، فأما غير المقتدي إذا فتح على المصلي تفسد به صلاة المصلي، وكذلك المصلي إذا فتح على غير المصلي؛ لأنه تعليم وتعلم، والقارئ إذا استفتح غيره فكأنه يقول: بعد ما قرأت ماذا فذكرني، والذي يفتح عليه كأنه يقول بعد ما قرأت كذا فخذ مني، ولو صرح بهذا لم يشكل فساد صلاة المصلي، فأما المقتدي إذا فتح على إمامه هكذا في القياس، ولكنه استحسن لما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ سورة المؤمنين فترك حرفًا، فلمافرغ قال: ألم يكن فيكم أبي؟ فقالوا: نعم يا رسول الله، فقال: هلا فتحت علي! فقال ظننت أنها نسخت، فقال: لو نسخت لأنبأتكم بها» وعن علي - رضي الله تعالى عنه - قال: إذا استطعمك الإمام فأطعمه وابن عمر قرأ الفاتحة في صلاة المغرب فلم يتذكر سورة، فقال نافع: {إذا زلزلت الأرض زلزالها} [الزلزلة: 1] فقرأها، ولأن المقتدي يقصد إصلاح صلاته، فإن قرأ الإمام فلتحقق حاجته قلنا لاتفسد صلاته."

(کتاب الصلواۃ ،باب الحدث  في الصلواۃ، ج:1، ص: 193 ط:دارالمعرفة بیروت)

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

'' وفتح المراهق كالبالغ.''

(الفتاوى الهندية، کتاب الصلاة، ج:1، ص:99، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں