بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ کے ساتھ صلح کا حکم


سوال

 ایک آدمی وفات پا چکا ہے اس کے ورثاء میں سے بعض  ورثاء بالغ اور بعض نابالغ ہیں ، بالغوں سے صلح ہو سکتی ہے،  لیکن نابالغوں کے ساتھ صلح  کی  کیا صورت  ہوگی؟  جب کہ ان نابالغ  کا  نہ  والد  زندہ  ہے اور  نہ  دادا اور  نہ کوئی  وصی ہے  اور  اس  زمانے  میں  صحیح  قاضی  بھی نہیں ہے، یہ نابالغ اب والدہ یا چچا یا بھائی کی پرورش میں ہیں تو   کیا اب نابالغ کے مال کے بارے میں والدہ، چچا یا بھائی  کے ساتھ صلح جائز ہے ؟جب کہ اگر ان سے صلح  نہ ہوسکے تو قوی اِمکان ہے کہ پھر ان کو جائیداد میں حصہ نہیں ملےگا،  دوسرے ورثاء یہ حصہ ضائع کریں گے۔

جواب

واضح رہے کہ نابالغ کے مال کی ولایت والد کو اور  والدکے بعد والد کے وصی کو اگر والد نے وصی مقرر نہیں کیا تو پھر دادا کو اور اگر داد ا بھی زندہ نہ ہو تو پھر حاکم وقت کو حاصل ہوتی ہے ،اگر حاکم وقت خود مال کی حفاظت نہ کرسکے تو کسی دیندار شخص کومقرر کر ےجو نابالغ کے مال کی حفاظت کرے اور ضائع ہونے سے محفوظ رکھے،نابالغ کے کسی تصرف اور اجازت کااعتبار نہیں ہے ۔

لہٰذاصورتِ  مسئولہ میں براہ رست نابالغ کے ساتھ صلح کرنا جائز نہیں اور نابالغ کی  اجازت دینے کا بھی شرعاً کوئی اعتبارنہیں،لہٰذا دیگر ورثاء کوچاہیے کہ بذریعہ عدالت یابراہ راست  کسی دیندار شخص کو نابالغ کا وصی مقرر کریں اور پھر اگر وہ  وصی صلح میں نابالغ کا نفع سمجھتاہو تو پھر وہ صلح کرلے،اور صلح میں نابالغ کو نقصان پہنچے  کا اندیشہ  تو صلح نہ کرے۔

الدرالمختار مع ردالمحتار میں ہے :

"و الولاية في مال الصغيرإلى الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ثم إلى أبي الأب ثم إلى وصيه ثم إلى القاضي ثم إلى من نصبه القاضي ثم وصي وصيه. و ليس لوصي الأم و وصي الأخ (ولاية التصرف فيتركة الأم مع حضرة الأب أو وصيه أو وصي وصيه أو الجد."

(کتاب القضاء،باب الوكالة بالخصومة والقبض،ج:5،ص:528،ط:سعید)

وفیہ ایضاً :

"ولو أوصى إلى رجل والأولاد صغار وكبار فمات بعضهم وترك ابنا صغيرا فوصي الجد وصي لهم يصح بيعه عليه كما صح على أبيه في غير العقار فليحفظ. وأما وصي الأخ والأم والعم وسائر ذوي الأرحام ففي شرح الإسبيجابي أن لهم بيع تركة الميت لدينه أو وصيته إن لم يكن أحد ممن تقدم لا بيع عقار الصغار إذ ليس لهم إلا حفظ المال ولا الشراء للتجارة ولا التصرف فيما يملكه الصغير."

(کتاب الوصایا ،باب الوصی،ج6،ص714،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں