بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نا بالغ بچوں اور بچیوں سے محنت و مزدوری کروانے کا شرعی حکم


سوال

اسلام میں نابالغ بچوں کی مزدوری سے متعلق کیا حکم ہے؟ جیسے میں نے متعدد چھوٹی بچیوں  کو لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہوئے ، ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرتے  ہوئے دیکھا ہے اور جب آپ ان سےکچھ کہو تو ہر شخص جواب میں یہ کہتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی ہمارے پیارے پیغمبر ﷺ کے گھر میں کام کیا کرتے تھے۔

جواب

واضح رہے کہ معاشرے میں موجود  بیوہ، یتیم، مسکین اور ان جیسے غریب اور نادار افرا د کی کفالت اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا  بنیادی طور پرحکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے،  لہذا حکومت ایسے تمام افراد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرے  اور ان کی  ضروریات کی کفالت کرے۔ (1)

نیز  بچے مستقبل کے معمار ہیں، انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لیے بچپن ہی سے اچھی تعلیم و  تربیت دینا ضروری ہے، اگر ضرورت محسوس ہو اور بچے میں صلاحیت موجود ہو تو اسے کوئی ہنر سکھانے اور اس کی تربیت کے لیے کسی ماہرِ فن کے پاس بٹھانے کی گنجائش ہے، بسا اوقات بچے کی طبیعت پڑھائی کی جانب آمادہ نہیں ہوتی،ایسے بچوں کو سرپرست ہنر مندی، محنت کشی  اور کام کاج میں لگاتے ہیں ، تاکہ ان کے دلوں میں پڑھائی کی اہمیت پیدا ہو  اور  انہیں تعلیم کے فوائد و ثمرات   کا ادراک ہو  اور  وہ  محنت و مزدوری میں پیش آنے والی مشکلات دیکھ کر پڑھائی پر آمادہ  ہوں۔

ان اغراض اور مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے بچے کو کوئی ہنر سکھانے کے لیے کسی کے پاس  محنت و مزدوری کے لیے بٹھانے کی اجازت ہے، البتہ اس کے لیے کچھ حدود اور شرائط ہیں، جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

1.     بچہ کی عمراس حد تک پہنچ چکی ہو کہ اس کا جسم اس ہنر کو سیکھنے اور کام کاج کو برداشت کرسکتا ہو، عمر کی یہ حد بچوں کے مزاج ، علاقے اور زمانے کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے، چنانچہ جو بچہ کام کاج کرنے اور مزدوری کرنے کے قابل نہ ہو اس سے مزدوری اور کام کاج کروانا جائز نہیں۔(2)

2.     بچے کو اس کی جنس کی رعایت رکھتے ہوئے ہنر اور کام پر لگایا جائے، بچوں کو مردوں کے مناسب اور لائق کاموں اور بچیوں کو عورتوں کے لیے موزوں امور میں کام پر لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ بچیوں کو سلائی کڑھائی جیسے ہلکے پھلکے کاموں میں لگانے کی گنجائش ہے۔(3)

3.     جس جگہ بچے/ بچی کام کر رہے ہوں وہاں  ان  کی جان اور عزت کی حفاظت یقینی ہو، جس جگہ یا جس کام میں ان کی جان یا عزت کو خطرہ ہو  وہاں انہیں کام پر نہیں لگایا جاسکتا۔ (4)

4.     بچہ مزدوری کرکے جو کمائے گا وہ اسی کی ذات پر خرچ کیا جائے گا، اس کی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد جو آمدنی بچ جائے وہ  بچے کے والد یا اس شخص کے پاس بطورِ امانت محفوظ رکھی جائے گی جس کی پرورش میں وہ  بچہ ہے،  اگر وہ شخص غیر معتمد ہے اور اس پر اطمینان نہیں کہ وہ بچے کی کمائی کو محفوظ رکھ سکے گا تو اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا جائے گا، عدالت وہ آمدنی کسی معتمد شخص کے پاس بطورِ  امانت  رکھے گی۔(5)

5.     بچے کو محنت و مزدوری   پر لگانا اس کی تعلیم و تربیت کو متاثر نہ کرے، اگر بچے کو کام  پر لگایا جس کی  وجہ سے وہ تعلیم میں بے رغبتی دکھاتا ہے یا تعلیمی سرگرمیوں سے دور ہوتا  ہے تو بچے کو کام پر لگانا جائز نہیں ہے۔ (6)

6.     بچے کو جس کام کاج پر لگایا جارہا ہے وہ اس کی ذہنی ، اخلاقی اور جسمانی نشو ونما کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔

7.     بچے کو مزدوری پر لگانے کے لیے اس کے  ولی یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔(7)

لہذا ایسے نابالغ جو عاقل ہوںاور پڑھائی وغیرہ میں دل چسپی نہ رکھتے ہوں انہیں ولی کی اجازت کے ساتھ مزدوری کا موقع دینا شرعًا جائز ہے، لیکن اگر بچہ عاقل نہیں یا وہ پڑھائی میں دل چسپی رکھتا ہے اور ولی کے پاس اسے پڑھانے کی طاقت و استطاعت ہے تو ایسے بچے کو مزدوری پر نہیں لگانا چاہیے۔

  تاہم بچوں کی مزدوری پر حضور ﷺ کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے معمول سے استدلال کرنا درست نہیں، وہ مزدور نہیں تھے،  بلکہ  نبی کریم ﷺ کے خادم اور زیرِ تربیت تھے۔

حوالہ جات:

(1) «قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك. اهـ. ، ولكنه مخالف لما في الهداية والزيلعي أفاده الشرنبلالي أي فإن الذي في الهداية وعامة الكتب أن الذي يصرف في مصالح المسلمين هو الثالث كما مر. وأما الرابع فمصرفه المشهور هو اللقيط الفقير والفقراء الذين لا أولياء لهم فيعطى منه نفقتهم وأدويتهم وكفنهم وعقل جنايتهم كما في الزيلعي وغيره.وحاصله أن مصرفه العاجزون الفقراء فلو ذكر الناظم الرابع مكان الثالث ثم قال وثالثها حواه عاجزونا ورابعها فمصرفه إلخ لوافق ما في عامة الكتب»

(رد المحتار ، کتاب الزکاة، باب العشر2/ 338 ط: سعید)

(2) الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم

(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع 1 / 562 ط: سعيد)

(3) و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة

(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع 1 / 562 ط: سعيد)

قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثى بنحو خياطة وغزل يجب أن تكون نفقتها في كسبها كما هو ظاهر، ولا نقول تجب على الأب مع ذلك، إلا إذا كان لا يكفيها فتجب على الأب كفايتها بدفع القدر المعجوز عنه، ولم أره لأصحابنا. ولا ينافيه قولهم بخلاف الأنثى؛ لأن الممنوع إيجارها، ولا يلزم منه عدم إلزامها بحرفة تعلمها. اهـ أي الممنوع إيجارها للخدمة ونحوها مما فيه تسليمها للمستأجر بدليل قولهم؛ لأن المستأجر يخلو بها وذا لا يجوز في الشرع، وعليه فله دفعها لامرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة مثلا»

( رد المحتار، كتاب الطلاق، باب النفقة 3/ 612 ط: سعيد)

(4) وإذا بلغ الذكور حد الكسب يدفعهم الأب إلى عمل ليكتسبوا، أو يؤجرهم وينفق عليهم من أجرتهم بخلاف الإناث؛ ولو الأب مبذرا يدفع كسب الابن إلى أمين كما في سائر الأملاك مؤيد زاده معزيا للخلاصة.

و في الرد : (قوله: وإذا بلغ الذكور حد الكسب) أي قبل بلوغهم مبلغ الرجال إذ ليس له إجبارهم عليه بعده،  (قوله: بخلاف الإناث) فليس له أن يؤجرهن في عمل، أو خدمة تتارخانية لأن المستأجر يخلو بها وذلك سيئ في الشرع ذخيرة، ومفاده أنه يدفعها إلى امرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة إذ لا محذور فيه

( رد المحتار، كتاب الطلاق، باب النفقة 3/ 569 ط: سعيد)

(5) ثم في الذكور إذا سلمهم في عمل فاكتسبوا أموالا فالأب يأخذ كسبهم وينفق عليهم، وما فضل من نفقتهم يحفظ ذلك عليهم إلى وقت بلوغهم كسائر أملاكهم، فإن كان الأب مبذرا مسرفا لا يؤمن على ذلك فالقاضي يخرج ذلك من يده ويجعله في يد أمين ويحفظ لهم، فإذا بلغوا أسلم إليهم كذا في المحيط

(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع 1 / 562 ط: سعيد)

(6) وقال الإمام الحلواني: إذا كان الابن من الكرام، ولا يستأجره الناس فهو عاجز، وكذا طلبة العلم إذا كانوا عاجزين عن الكسب لا يهتدون إليه لا تسقط نفقتهم عن آبائهم إذا كانوا مشتغلين بالعلوم الشرعية لا بالخلافيات الركيكة وهذيان الفلاسفة، ولهم رشد، وإلا لا تجب كذا في الوجيز للكردري ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة.

(الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع 1 / 562 ط: سعيد)

(7) وأما البلوغ فليس من شرائط الانعقاد ولا من شرائط النفاذ عندنا، حتى إن الصبي العاقل لو أجر ماله أو نفسه فإن كان مأذونا ينفذ وإن كان محجورا يقف على إجازة الولي عندنا

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الإجارة 4/ 176 ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں