بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچیوں کے مال پر زکات کا حکم


سوال

میرا بھائی فوت ہو گیا ہے، اور اس کی تین بیٹیاں ہیں، تینوں کی عمر چھ سال سے کم ہے، بھائی کے اکاؤنٹ میں جو کچھ پیسے تھے، یا بھائی جہاں نوکری کرتا تھا، وہاں سے جو پیسے ملیں گے، وہ میں ان بچیوں کی امانت سمجھ کر بینک اکاؤنٹ میں رکھ رہا ہوں، جو ان کے بالغ ہونے پر ان کی شادی کے موقع پر دے دوں گا، باقی ان کی کفالت، کھانا پینا، کپڑے، اسکول کے اخراجات میں اپنے پیسوں سے ہی کروں گا، ان پیسوں سے نہیں جو میں بینک میں جمع کرارہا ہوں، پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان پیسوں پر زکات لازم ہوگی؟

کیا ان کے پیسوں میں سے کچھ ادھار کے طور پر خود استعمال کرسکتا ہوں، جو بعد میں ضرورت پوری ہونے پر دوبارہ اکاؤنٹ میں ڈال دوں گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم بھائی کے ترکہ  میں سے دو تہائی کی حق دار ان کی بیٹیاں ہیں، لہذا کل ترکہ کا دو تہائی آپ محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور بقیہ ترکہ کے حق داروں میں ان کی بیوہ،  اور والدین اگر دونوں حیات ہوں یا دونوں میں سے کوئی ایک حیات ہو، اگر   والدین نہ ہوں تو مرحوم کے بھائی بہن بطور عصبہ شامل  ہوں گے، پس دو تہائی ترکہ کے علاوہ بقیہ ترکہ مرحوم کے شرعی وارثین کے درمیان شرعی حصص کے تناسب سے تقسیم  کرنا واجب ہوگا، بیوہ کا حصہ کل ترکے کا آٹھواں حصہ (٪12.5) ہوگا۔

مرحوم کی بیٹیوں کے حصہ کی رقم پر زکات لازم نہ ہوگی تاوقتیکہ  وہ بالغ نہ ہوجائیں، اور ان کے حصے کی رقم ان میں سے ہر ایک کی ملکیت و تصرف میں نہ دے دی جائے۔

مذکورہ رقم چوں کہ آپ کے پاس امانت ہے، لہذا اس میں سے رقم لے کر اپنے استعمال میں لانے کی شرعاً آپ کو اجازت نہ ہوگی،  البتہ مرحوم بھائی کی بیٹیوں پر  ان کی رقم   خرچ کرسکتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں