بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ یتیم کی ولایت اور کفایت


سوال

یتیم نابالغ بچے کی زکاۃ وصول کرنے کا اختیار کس کس کو ہے؟ کیا یتیم نابالغ کی زکاۃ اس کی مال دار  ماں وصول کر سکتی ہے؟  کیا یتیم نابالغ کا مال اس کی ماں اسی پر خرچ کر سکتی ہے؟ یتیم نابالغ کی کفالت کس کے ذمہ واجب ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی بچے کے باپ کے انتقال کے بعد اُس کے مالی معاملات کا ذمہ دار وہ شخص ہوتا ہے جس کو  باپ نے انتقال سے پہلے مقرر کیا ہو، اسے اصطلاح میں ’’وصی‘‘ کہتے ہیں، اگر ایسا کوئی ’’وصی‘‘ مقرر نہ کیا ہو تو بچے کا ولی  اس کا دادا ہوتا ہے، اگر دادا نہ ہو تو  دادا کا مقرر کردہ شخص یعنی ’’وصی‘‘ اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے، اگر ایسی بھی نہ ہو تو  قاضی بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار مقرر کرے گا، اور قاضی کی عدمِ موجودگی کی صورت میں  خاندان کے با اثر لوگ جس شخص  کو بچے کے مالی معاملات  دیکھنے کے لیے مقرر کر دیں وہی اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہو گا۔

بچے کے مال میں تصرف کا حق ان ہی لوگوں کو ہو گا جن کا ذکر کیا گیا، باقی اُس کے لیے مال پر قبضہ کرنے کا حق دوسروں کو بھی حاصل ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بچہ اپنی والدہ کی پرورش میں ہے تو  والدہ اُس کی طرف سے زکاۃ وصول کر سکتی ہے، پھر ضرورت پڑنے پر اس میں سے اس پر خرچ بھی کر سکتی ہے۔

باقی یتیم بچے کی کفالت اولاً اس کے دادا کے ذمے  ہے، وہ نہ ہو تو  بڑے بھائی جو برسرِ روز گار ہوں ان کے ذمے، وہ نہ ہوں تو چچا کے، وہ نہ ہو تو  چچا زاد بھائی کے ذمے ہے۔

جامع الفصولين (2/ 9):
"وليس لغير أبيه وجده ووصيهما التصرف في ماله، وكذا لو وهب له فلمن هو في حجره قبضه لا إنفاقه عليه، لما مر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 714):
"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه، فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 76):
"(الولي في النكاح) لا المال (العصبة بنفسه) ...... (قوله: لا المال) فإن الولي فيه الأب ووصيه والجد ووصيه والقاضي ونائبه". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108201133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں