بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نا بالغ کے پیچھے نفل پڑھنا


سوال

 میرا بیٹا (عمر 9سال) اور بھتیجا (عمر 12سال) دونوں نے 14سپارے حفظ کرلیے ہیں، معلوم یہ کرنا تھا کہ آخری عشرے میں وہ نفل نماز کی جماعت کرائیں جس میں میں بھی شامل ہوں، اس میں مقصود  ان کا سیکھنا اور خود اعتمادی پیدا کرنا ہے۔ کیا میرا یا کسی بالغ کا ان کی جماعت میں شامل ہونا صحیح ہوگا؟ 

جواب

واضح رہے کہ نا بالغ ، نابالغ کے لیے امام بن سکتا ہے،بالغ کا امام نہیں بن سکتا  ؛لہذا  صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے اور  کسی بالغ کے لیے نابالغ بچوں کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے، اس میں فرض اور غیر فرض دونوں کا حکم ایک ہے۔البتہ جو  بھتیجا  12سال کا ہے وہ اگر  بالغ ہو گیا ہے تو اس کی اقتداء  میں نماز پڑھنا درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا يصح اقتداء رجل بامرأة) وخنثى (وصبي مطلقا) ولو في جنازةونفل على الأصح.

‌وأما غير البالغ؛ فإن كان ذكرا تصح إمامته لمثله من ذكر وأنثى وخنثى.....ومن هذا يظهر أنه ‌لا ‌تصح إمامته في الجنازة أيضا وإن قلنا بصحة صلاته وسقوط الواجب بها عن المكلفين لأن الإمامة للبالغين من شروط صحتها البلوغ."

(کتاب الصلاۃ، ‌‌باب الإمامة، ج: 1، ص:  576- 578، ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وإمامة الصبي المراهق لصبيان مثله يجوز. كذا في الخلاصة وعلى قول أئمة بلخ يصح الاقتداء بالصبيان في التراويح والسنن المطلقة. كذا في فتاوى قاضي خان المختار أنه لا يجوز في الصلوات كلها. كذا في الهداية وهو الأصح. هكذا في المحيط وهو قول العامة وهو ظاهر الرواية. هكذا في البحر الرائق."

(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج: 1، ص: 85، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں