بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کو گنجا کرانا


سوال

نابالغ بچوں کو سزا کے طور پر گنجا کرنا کیسا ہے، جب کہ بچہ گنجا کرانا نہ چاہتا ہو، اور گنجا نہ کرنے پر بہت  ضد بھی کرتا ہو،  اس کا حکم کیسا ہے؟

 

جواب

عام حالت میں لڑکے یا مرد کے لیے سر منڈوانا  ایک مباح عمل ہے،   پس تربیت  کے  طور  پر کسی طالب علم کو اگر گنجا کرایا جائے،  یا والدین اپنے  بالغ یا نا بالغ لڑکوں کو   گنجا کرائیں  تو اس کی اجازت ہوگی۔ 

بچے چوں کہ اپنی بھلائی اور مصالح کا اِدراک نہیں  رکھتے؛ اس لیے سرپرست یا والد  یا اساتذہ کو شرعًا اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ ان کی رضامندی کے بغیر ان کی بھلائی کا کام کرگزریں، جیسے  حضرت جعفر بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ کی شہادت کے تین روز  کے بعد  ان کے بیٹوں کے سروں پر   رسول اللہ  ﷺ نے استرا پھروادیاتھا، جس سے  محدثین  و فقہاءِ کرام  نے استدلال کرکے یہ حکم مستنبط کیا ہے کہ ولی یا والد اپنے بچوں کی بھلائی کے  لیے انہیں حلق  کرا سکتے  ہیں۔

تاہم یہ ملحوظ رہے کہ  بچے کو گنجا کرانے میں بچے کی مصلحت اور فائدہ ملحوظ ہونا چاہیے،  اس کی کسی غلطی پر غصے یا انتقام کا جذبہ دل میں نہ ہو، اور صرف سزا دینا مقصود نہ ہو۔

مدارس میں سر کے بال کٹوانے کی پابندی کیوں کرائی جاتی ہے؟

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

4463 - وعن عبد الله بن جعفر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم أمهل آل جعفر ثلاثًا، ثم أتاهم، فقال: " لاتبكوا على أخي بعد اليوم". ثم قال: "ادعوا لي بني أخي" فجيء بنا كأنا أفرخ. فقال: "ادعوا لي الحلاق" فأمره فحلق رءوسنا» . رواه أبو داود، والنسائي.

وإنما حلق رءوسهم مع أن إبقاء الشعر أفضل إلا بعد فراغ أحد النسكين على ما هو المعتاد على الوجه الأكمل لما رأى من اشتغال أمهم أسماء بنت عميس عن ترجيل شعورهم بما أصابها من قتل زوجها في سبيل الله، فأشفق عليهم من الوسخ والقمل. قال ابن الملك: وهذا يدل على أن للولي التصرف في الأطفال حلقا وختانا."

( كتاب اللباس، باب الترجل، 7 / 2834، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212201745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں