بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نا اہل کا سفارش پر عہدہ حاصل کرنا


سوال

اگر کوئی شخص کسی عہدے یا ملازمت (سرکاری یا غیر سرکاری) کا اہل نہیں ،یعنی اس ملازمت یا عہدے کے لیٕے جو شرائط مطلوب ہیں،وہ شرائط اس شخص میں نہیں پائی  جاتیں اور وہ شخص کسی سفارش کی بنیاد پر اس ملازمت کو حاصل کرلیتا ہے تو اس ملازمت سے حاصل ہونے والی کمائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے کسی حق دار کو اس کاحق دلانے کی جائزسفارش کرنا تو اجروثواب کا باعث ہے، لیکن اہلیت نہ ہو تو سفارش کرنا گناہ کا باعث ہے، لہذا   نا جائز سفارش کرنا ناجائز ہے،  بغیر استحقاق و اہلیت کے محض ناجائز سفارش کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنا بھی ناجائز ہے، البتہ اگر کوئی شخص نوکری کا اہل بھی ہو اور مستحق بھی ہو  اوروہ سفارش کے ذریعہ نوکری حاصل کرلے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، اور متعلقہ ذمہ داریاں اگر امانت داری کے ساتھ بحسن و خوبی انجام دیتاہے تو تنخواہ بھی حلال ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر کسی شخص نے  اہلیت اور استحقاق نہ ہونے کے باوجود سفارش کے ذریعے   ملازمت یا عہدہ  حاصل کیا تو  ان دونوں  کا  یہ عمل (سفارش کرنے والےکا نا جائز سفارش کرنااور سفارش کروانے والے کا سفارش کروانا)  بہرحال ناجائز اور گناہ ہوگا، لیکن ملازمت یا عہدہ حاصل کرلینے کے بعد  ان سے متعلقہ امور کی دیانت دارانہ انجام دہی پر حاصل ہو نے والی تنخواہ حلال ہوگی۔ اور اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد متعلقہ ذمہ داریاں انجام نہ دے یا ملک و ملت کے نقصان کا سبب ہو تو ناجائز سفارش کرنے والے پر بھی اس کا بوجھ ہوگا۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْبلٌ مِنْهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتًا ."[النساء:85]

ترجمہ:" جو کوئی سفارش کرے نیک بات میں اس کو بھی ملے گا اس میں سے ایک حصہ، اور جو کوئی شفارش کرے  بُری بات میں اس پر بھی   ہے ایک بوجھ اس میں سے اور اللہ ہے ہر چیز پر قدرت رکھنے والا۔"

  یعنی: اگر کوئی نیک کام میں سعی ،سفارش کرے جیسا کہ نبی اکرمﷺ  کا مسلمانوں کو جہاد کی تاکید فرمانا، یا کوئی بری بات میں ساعی ہو  جیسا منافق اور سست مسلمانوں کا جہاد سے ڈر کر دوسروں کو بھی ڈرانا  تو اول صورت میں ثواب کا اور دوسری صورت میں گناہ کا حصہ ملے گا، ایسے ہی اگر کوئی محتاج کی سفارش کرکے دولت مند سےکچھ دلوا دے تو یہ بھی خیرات کے ثواب میں شریک ہو گا اور جو کوئی کافر مسفد یا سارق کو سفارش کرکے چھڑا دے پھر وہ فساد اور چوری کرے تو یہ بھی شریک ہو گا فساد اور چوری میں۔"

(ماخوذ از تفسیر عثمانی، ص: 119)

الأشباه والنظائر میں ہے:

"‌إن ‌السلطان ‌اعتمد أهليته فإذا لم تكن موجودة لم يصح تقريره خصوصا إن كان المقرر عن مدرس أهل فإن الأهل لم ينعزل وصرح البزازي في الصلح أن السلطان إذا أعطى غير المستحق فقد ظلم مرتين؛ بمنع المستحق وإعطاء غير المستحق."

(الفروق،فائدة اذاولي السلطان مدرسا ليس بأهل،ص:337،ط:دارالكتب العلميه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں