بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

این جی اوز میں ملازمت کرنے اور ان سے امداد لینے کا حکم


سوال

جتنی  بھی  این جی اوز  پاکستان میں ہیں، ان میں ملازمت کرنا اور ان کی  مدد حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ’’این جی او‘‘  میں ملازمت کرنے  کے  جائز یا ناجائز ہونے کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ این جی او اپنے ملازم سے کیا کام لیتی ہے؟ اور اس این جی او کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟  لہذا:

(1) جس ’’این جی او‘‘  میں ملازم سے  خلافِ شریعت کام نہیں لیا جاتا ہو اور اس این جی او کے پسِ پردہ مقاصد، اسلام کے خلاف نہ ہوں تو اس میں نوکری کرنا جائز ہے، لیکن جس این جی او میں ملازم سے خلافِ شرع (ناجائز)  کام لیا جاتا ہو یا اس این جی او کے مقاصد خلافِ شریعت ہوں تو اس این جی او میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

(2) اگر این جی اوز   والے صحیح  العقیدہ  مسلمان ہوں، تو  ان سے امداد  لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن اگر  این جی اوز  والے گمراہ کن عقائد رکھتے ہوں  یا  سرے  سے مسلمان ہی نہ ہوں،بلکہ کافر ہوں تو  اس صورت  میں حکم یہ ہے کہ اگر ان سے امداد لینا موجودہ  وقت میں یا آئندہ  زمانے  میں اسلام اور مسلمانوں  کی مصلحت کے خلاف ہو  اور  اس امداد  لینے  سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو    تو  ان سے امداد لینا جائز نہیں اور اگر کسی بھی صورت میں دینی اعتبار سے نقصان کا غالب اندیشہ نہیں ہو    اور ان سے امداد لینے میں مسلمانوں کی مصلحت ہو  تو پھر  ان سے امداد لینا جائز ہوگا۔

الموسوعة الفقهية  میں ہے:

"وَلاَيَجُوزُ اسْتِئْجَارُ كَاتِبٍ لِيَكْتُبَ لَهُ غِنَاءً وَنَوْحًا؛ لأَِنَّهُ انْتِفَاعٌ بِمُحَرَّمٍ."

(الإِْجَارَةُ عَلَى الْمَعَاصِي وَالطَّاعَاتِ، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

"أحکام القرآن"  للجصاص   میں ہے:

"و في هذه الآیة دلالة علی أنه لاتجوز الاستعانة بأهل الذمة في أمور المسلمین من العمالات و الکتبة."

(أحکام القرآن، للجصّاص، آل عمران، باب الاستعانة بأهل الذمة، (2/74) ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

 تکملہ فتح الملہم میں  ہے:

”والذي یتخلص من مجموع الروایات أنّ الأمر في الاستعانة بالمشرکین موکول إلی مصلحة الإسلام والمسلمین، فإن کان یؤمن علیهم من الفساد، وکان في الاستعانة بهم مصلحة فلا بأس بذلك إن شاء اللہ إذا کان حکم الإسلام هو الظاهر، و یکون الکفار تبعًا للمسلمین، و إن کان للمسلمین عنهم غنی أو کانوا هم القاد ة و المسلمون تبعًا لهم أو یخاف منهم الفساد فلایجوز الاستعانة بهم.“ (ج:۳‘ ص:۲۶۹)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144211200471

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں