بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مزنیہ کی پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کا حکم/ بد فعلی سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام درجِ ذیل مسئلے کے بارے میں:

1:  زانی کا نکاح توبہ کے بعد مزنیہ کی پھوپھی کی بیٹی سے ہوا ہے؟

2:  ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ زانی نے اپنے سالہ کے ساتھ یعنی اپنی بيوی کے بھائی کے ساتھ کالج کے زمانے میں بدفعلی یعنی لواطت کی تھی، کیا اس کی بہن سے نکاح درست ہے؟ یا حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی؟

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں مزنیہ کی پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے۔

2:  مذکورہ فعلِ شنیع سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، لہذا ایسے مذکورہ فعلِ شنیع کئے ہوئے شخص کی بہن سے نکاح جائز ہے۔

 واضح رہے کہ بدفعلی خواہ کسی کے ساتھ بھی ہو عقلاً، طبعًا، شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے، اس کی حرمت اور مذمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں سےسنگین ترین گناہ لواطت (یعنی بدفعلی ہے خواہ وہ بیوی کے ساتھ ہو یا کسی اور سے ہو) ہے، جو انسان کو ہلاک اور برباد کرنے والا ہے، اس کی سخت ترین سزائیں دنیا اور آخرت میں بیان کی گئی ہے، خصوصًا جب کسی مردکے ساتھ یہ فعلِ بد کیا جائے تو اس میں دوہرا گناہ ہے؛ لہذا ایسے عمل سے قطعی اجتناب واجب ہے جو دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بنے، اور اگر اس طرح کے گناہ سرزد ہونے کے بعد اس گناہ پر پشیمان ہوتے ہوئے اس سے سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی ہو، تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کو معاف کر دیں گے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"(و أما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح و لا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكرا؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسبا أو رضاعا، وخالتها كذلك ونحوها ويجوز بين امرأة وبنت زوجها فإن المرأة لو فرضت ذكرا حلت له تلك البنت بخلاف العكس."

(کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ج:1، ص:277، ط:مکتبہ رشیدیہ)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق مع منحة الخالق میں ہے:

"وليفيد أنه لا بد أن تكون المرأة حية؛ لأنه لو وطئ الميتة فإنه لا تثبت حرمة المصاهرة كما في الخانية وليفيد أنه لا بد أن يكون في القبل؛ لأنه لو وطئ المرأة في الدبر فإنه لا يثبت حرمة المصاهرة وهو الأصح؛ لأنه ليس بمحل الحرث فلا يفضي إلى الولد كما في الذخيرة وسواء كان بصبي أو امرأة كما في غاية البيان وعليه الفتوى كما في الواقعات ولأنه لو وطئها فأفضاها لا تحرم عليه أمها لعدم تيقن كونه في الفرج إلا إذا حبلت.

(قوله؛ لأنه لو وطئ المرأة في الدبر) قال الكاكي - رحمه الله تعالى - أما لو لاط بغلام لا يوجب ذلك حرمة عند عامة العلماء إلا عند أحمد والأوزاعي فإن تحريم المصاهرة عندهما يتعلق باللواطة حتى تحرم عليه أم الغلام وبنته اهـ. وفي الغاية والجماع في الدبر لا يوجب حرمة المصاهرة وبه أخذ بعض مشايخنا، وقيل: يوجبها، وبه كان يفتي شمس الأئمة الأوزجندي؛ لأنه مس وزيادة، قال صاحب الذخيرة وما ذكره محمد أولا أصح لعدم إفضائه إلى الجزئية".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:106، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: حرمتها أشدّ من الزنا؛ لحرمتها عقلًا وشرعًا وطبعًا".

(مطلب لاتكون اللواطة فى الجنة، ج4، ص:28، ط:ایچ ایم سعید)

 روح المعانی فی تفسیرالقرآن العظیم والسبع المثانی (تفسیر آلوسی) میں ہے:

"{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ}

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزمًا جازمًا على أن لايعود إلى مثلها أبدًا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم ردّ الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، وركنها الأعظم الندم".

(سورة التحریم،رقم الآیۃ:08، ج:13، ص:784، ط:المکتبة التوفیقیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں