بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مزدلفہ میں حالت احرام میں ہینڈواش سے ہاتھ دھونے سے دم کا لازم ہونا


سوال

مزدلفہ میں احرام کی حالت میں ہینڈ واش سے ہاتھ دھونے سے دم لازم آتا ہے کہ نہیں؟ اکثر عازمین حج احرام کی حالت میں غلطی سےہاتھ دھوتےہیں، اس میں تھوڑی سی خوشبو محسوس ہوتی ہے ، سوال یہ ہےاگر دم لازم آتا ہے ، پھر انھوں نے مزدلفہ میں ہینڈ واش لگائے کیوں ہیں ،کیونکہ مزدلفہ والے ہینڈ واش تو صرف ان دنوں میں استعمال ہوتے ہیں ،جب لوگ احرام کی حالت میں ہوتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ احرام کی حالت میں خوشبو والا صابن استعمال کرنا ممنوع ہے ،پھر اگر اس سے ایک بار ہاتھ دھو لیے جائیں تو صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہوگا اور اگر بار بار ہاتھ دھوئے جائیں تو پھر دم لازم ہوگا،لہذا صورتِ مسئولہ میں احرام کی حالت میں  خوشبودار ہینڈواش سے اگر ایک بار ہاتھ دھوئے ہوں ،تو صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہے ،اور اگر بار بار ہاتھ دھوئے جائیں تو پھر دم لازم ہوگا،چاہے بھول کر ہی کیوں نہ دھوئے ہوں ۔

باقی مزدلفہ میں  خوشبودار ہینڈ واش  کیوں لگائے جاتے ہیں ،اس بارے میں کو ئی علم نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويستوي في وجوب الجزاء بالتطيب الذكر والنسيان والطوع والكره والرجل والمرأة هكذا في البدائع."

(کتاب المناسک ،الباب الثامن فی الجنایات،الفصل الاول فی ما یجب بالتطیب ،ج:1،ص:241،دارالفکر)

وفيه أيضا:

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم، وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين. هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال، وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى، كذا في النهر الفائق".

(کتاب المناسک ،الباب الثامن فی الجنایات،الفصل الاول فی ما یجب بالتطیب ،ج:1،ص:240،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں