بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انویسٹر اور تاجر کے درمیان اختلاف کی ایک صورت


سوال

 زید نے بکر کو کہا کہ مثلا میں  دو کروڑ روپیہ میں،  مال منگواتا ہوں، اس میں آپ  کو بھی حصہ دوں گا ،اور ایک مہینہ کے اندر رقم بمع نفع لوٹا دوں گا، اسے پیسہ دیا اور زید نے مال منگوایا ،جس وقت زید مال منگوا رہا تھا اس وقت دبئی میں اس کے تقریباً تین کنٹینر مال پڑا تھا ،ان میں سے دو کوئٹہ پہنچ کر بیچ دیے ا،ور ایک کنٹینر کراچی پورٹ پر بعض وجوہ کی بنا اب تک کھڑا ہے، پاس نہیں ہوتا ،بکر زید سے کہتا ہے کہ وقت زیادہ گذرا ہے مقررہ مدت گزرگئی ہے تقریباً سال ہونے کہ قریب ہے، مجھے اصل سرمایہ اور نفع لوٹا دو، وہ کہتا ہے کہ میں نے آپ کی رقم اس کنٹینر میں لگائی ہے جو کراچی میں کھڑا ہے، اب زید اور بکر کے معاملے کا کیا حل ہے کیا وہ دیگر کنٹینرز  کامطالبہ کرسکتا ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  زید کی اس بات  پر   کہ "بکر کا مال اس  کنٹینر میں لگاہے جوابھی تک کراچی میں کھڑاہے"اگر کوئی  ثبوت ہوتو  اس صورت میں زید کی بات مانی جائے گی، اور  جب  اس کنٹینر کا مال فروخت ہوجائے گاتوزید بکر کو اس کی  رقم  منافع سمیت دے دےگا،اور اگر زید کے پاس  اپنی بات پر کوئی ثبوت نہ ہو  تو اس صورت میں بکر کی رقم کو  مع نفع کے واپس کرنا لازم ہے۔

ترمذی شریف میں ہے:

"حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا علي بن مسهر، وغيره، عن محمد بن عبيد الله، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته: «‌البينة ‌على ‌المدعي، واليمين على المدعى عليه."

(ج:3، ص: 618،رقم الحدیث:1341، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144501100702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں