بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت والے گھر میں تعلیم کے لیے جانے کا حکم


سوال

اگر کسی کی موت ہو جائے اور اس کے مرنے کے بعد پھر گھر میں تعلیم ہوتی ہے،کیا اس تعلیم میں جانا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

سوال میں تعلیم ہونے کا ذکر کیا۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ تعلیم سے مراد کیا ہے؟ اگر اس سے مراد قرآن خوانی ہے تو واضح رہے کہ مرنے والے کو قرآن  کریم پڑھ کر  بخشنا ، ایصال ِ ثواب کرنا اور  اس کے لیے بخشش کی  دعا کرنا یہ سب کام  جائزہیں اور مرنے والے کاحق ہیں،لیکن مروجہ قرآن خوانی میں بہت سی خرابیاں اور مفاسد  ہیں،جن کی وجہ سے  فقہاء نے  مروجہ قرآن خوانی کو  بدعت اور ناجائز لکھا ہے، لہذا قرآن خوانی کی محافل  میں شرکت جائز نہیں ۔مثلاً:

1۔  اعلان کے ذریعے لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے،جب کہ نفل کام کےلیے تداعی ممنوع ہے

2۔واجب کی طرح اس کا التزام  کیا جاتا،یعنی خاص دنوں کی تعیین کی جاتی ہے، اور  اس کو لازم سمجھا جاتاہے،اور حاضر نہ ہونے والوں کو طعن و ملامت کی جاتی ہے،اور حاضر ہونے والے کا منشا بھی نام و نمود اور ریا کاری ہوتا ہے

3۔پڑھنے والوں کو اجرت دی جاتی ہے، جس سے پڑھنےوالے خود ثواب کے مستحق نہیں ہوتے ، چہ جائے کہ وہ میت کو ثواب پہنچائیں

4۔کھانا کھلانے کو لازم سمجھا جاتا ہے،اور اس کے لیے بھاری قرض اٹھائے جاتے ہیں، یا ورثاء کا کے مال سے خرچ کیا جاتا ہے، جس میں ان کی رضامندی نہیں ہوتی وغیرہ   وغیرہ ، یہ سب خرابیاں سنت اور شریعت کو چھوڑنے کی وجہ سے ہیں، اگر شریعت کے مطابق ایصال ثواب کیا جائے تو اس میں راحت و آسانی بھی ہے، اور  پڑھنے والوں کا بھی نفع ہے اور میت کو بھی ثواب پہننچتا ہے۔

ایصال ِ ثواب کا درست طریقہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر آدمی جو عبادات کرتا ہے، نوافل، تلاوت ذکر و اذکار  ان میں یہ نیت کرے میرے ان کاموں کا ثواب فلاں میت کو پہنچ جائے، تو اس  سے میت کو بھی ثواب پہنچے گا، اور خود اس شخص کے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی، اور ریاکاری سے بچ جانے کی وجہ سے اعمال بھی  ضائع نہ ہوں گے، اسی طرح مالی صدقہ کا افضل طریقہ  یہ ہے کہ جس قدر وسعت ہو میت کی طرف  رقم کسی کار خیر میں لگا دے یا کسی مسکین کی حاجت پوری کردے، حدیث شریف میں چھپا کر صدقہ دینے والے کی فضلیت وارد ہوئی ہے کہ وہ قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہوگا، جس دن لوگ سورج کی تمازت کی وجہ سے اپنے پسینوں میں غرق ہوں گے۔اور اگر سائل کی مراد کچھ اور ہے تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ معلوم کر لیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها ‌من ‌كتاب ‌الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالا بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالبا من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم

(كتاب الصلوة، باب الجنائز، ج:2،ص:240، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً :

«وقد أطنب في رده صاحب تبيين المحارم مستندا إلى النقول الصريحة، فمن جملة كلامه قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. ‌فالحاصل ‌أن ‌ما ‌شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ".

(كتاب الإجارة، باب إجارة الفاسدة، ج:6،ص: 56، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507102295

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں