بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرم گاہ کو منہ لگانے کے عمل کا حکم


سوال

اگر میاں بیوی کے آپس میں ایک دوسرے کی شرم گاہ چاٹتے ہوۓ نجاست منہ میں چلی جاۓ، لیکن اسے حلق میں نہ لے جایا جاۓ، بلکہ تھوک دیا جاۓ تو کیا گناہ ہو گا ؟اگر یہ عمل مکروہ ہے تو مکروہِ  تنزیہی ہے یا تحریمی ہے؟

جواب

بیوی کے لیے شوہر کی شرم گاہ کو  منہ لگانے کا حکم:

بیوی کے لیے شوہر کی شرم گاہ کو محض منہ لگانا مکروہ  ہے، تاہم شرم گاہ سے نکلنے والی مذی یا ودی کو نگلنا  ناپاک ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔

شوہر کے  لیے بیوی کی شرم گاہ کو منہ لگانے کا حکم:

 مذکورہ عمل  شرعی مزاج اور فطری حیا کے منافی ہے؛ اس لیے شرعاً ناجائز یا ناپسندیدہ ہونے کی بنا  پر ممنوع  ہے، اور فقہی لحاظ سے مختلف صورتوں میں اس ممانعت کے  درجات مختلف  ہیں، اگر صرف ظاہری  حصے میں مذکورہ عمل ہو  اور  منہ  میں نجاست بالکل نہ  جائے تو  مکروہ  تنزیہی  ہے، اور  داخلی ایسے حصوں تک  یہ عمل ہو   جہاں ظاہری رطوبت  ہو تو مکروہِ  تحریمی  (ناجائز) ہے اور یہ  رطوبت حلق  سے اندر اتار لی جائے یا حلق میں جانے کا غالب اندیشہ ہو  تو  حرام ہے۔

فتاوی رحیمیہ  میں ہے:

"بیشک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے۔ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرمگاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے،غورکیجئے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل کیسے گواراکرسکتاہے؟"

[فتاویٰ رحیمیہ،10/178،ط:دارالاشاعت کراچی]

تفسير مفاتيح الغيب ( التفسير الكبير )  میں   ہے:

"ويحرم عليهم الخبائث [الأعراف: 157] وذلك يقتضي تحريم كل الخبائث والنجاسات خبائث فوجب القول بتحريمها. الثالث: أن الأمة مجمعة على حرمة تناول النجاسات فهب أنا التزمنا تخصيص هذه السورة بدلالة النقل المتواتر من دين محمد في باب النجاسات فوجب أن يبقى ما سواها على وفق الأصل تمسكا بعموم كتاب الله في الآية المكية والآية المدنية فهذا أصل مقرر كامل في باب ما يحل وما يحرم من المطعومات."

(سورة الأنعام، رقم الآیات : 145 الى 147، ج:13، ص:169، ط:داراحیاء التراث العربی)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"إذا أدخل الرجل ذكره فم أمرأته فقد قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلايليق به إدخال الذكر فيه، و قد قيل بخلافه."

(کتاب الاستحسان و الکراهیة، الفصل الثانی و الثلاثون فی المتفرقات، ج:5، ص:408، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں