بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا لمبے عرصے تک ایک دوسرے سے الگ رہنے سے نکاح کا حکم


سوال

سوال یہ ہے  کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے تقریبا 27 سال کے عرصے کے بعد ملاقات کرتاہے، اور27 سال کے عرصے میں اس نے اپنی اہلیہ کو ایک دن کا بھی خرچہ نہیں دیا، اور نہ اس کی کوئی خیر خبر پوچھی ،اور 27 سال کے عرصے میں نہ ملاقات ہوئی  نہ بات ہوئی ، تو کیا  اب یہ نکاح باقی ہے یا نکاح ختم ہو گیا ؟اور اگر نکاح ختم ہو گیا ہے تو رجوع کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی کا لمبے عرصہ تک ایک دوسرے سے جدا رہنے سے ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا صورت  مسئولہ میں اگر شوہر نے بیوی کو طلاق نہیں دی ہے تو محض شوہر کا بیوی سے 27 سال کے عرصے تک  علیحدہ رہنے سے   دونوں کا نکاح ختم نہیں ہوا، ان کا آپس میں نکاح بدستور برقرار ہے، البتہ نکاح کرنے کی وجہ سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت سے حقوق لازم ہوجاتے ہیں، جو اِس طرح الگ رہنے سے ضائع ہوجاتے ہیں اور ان کے ‏ضائع کرنے کا شرعاً گناہ بھی ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ."

(سورہ بقرۃ: آیت:228)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"(أما تفسيره) شرعافهو ‌رفع ‌قيد ‌النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق...(وأما حكمه) فوقوع الفرقة بانقضاء العدة في الرجعي وبدونه في البائن كذا في فتح القدير. وزوال حل المناكحة متى تم ثلاثا."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسيره وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه وفيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه، ج:1، ص:148، ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم الخلع...فحكمه أنه يقع الطلاق."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الخلع، ج:3، ص:151، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"«وركنه لفظ مخصوص». 

(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."

(کتاب الطلاق ج:3، ص:230، ط :سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102617

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں