بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں تمہیں چھوڑ چکا ہوں کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

ایک دفعہ خاوند نے جب وہ پاکستان میں تھا تو ایک طلاق دی ان الفاظ میں کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، لیکن دونوں میں کچھ دن میں صلح ہوگئی، بعد میں غالباً کچھ سال بعد دوبارہ جھگڑے کی صورت میں ایک اور دفعہ طلاق کا لفظ استعمال کیا ،لیکن دونوں نے علیحدگی اختیار نہیں کی اور صلح کر لی،جب وہ باہر کے ملک تھا تو فون پر کچھ ایسے الفاظ میں کہہ دیتا کہ میں تمہیں چھوڑ چکا ہوں،  لیکن پھر کچھ دن بعد کہہ دیتا کہ میں تمہیں چھوڑ چکا ہوں، مطلب تم پاکستان میں ہو اور میں باہر تو میری چھوڑنے سے مراد یہ ہے، اب آخری دفعہ اس نے پچھلے مہینے مئی ۲۰۲۲ کو فون پر کہا کہ میں تمہیں چھوڑ چکا ہوں اور کیسے چھوڑوں؟ تو بیوی نے کہا کہ لکھ کر دے دو تو آگے سے نازیبا الفاظ میں جواب دیا کہ لکھ کر دینے سے کیا نکالتی ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نےمختلف اوقات میں دومرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کرلیاتھاتو آئندہ اس کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل تھااب جب شوہرنے مزیدیہ الفاظ بولے کہ  "میں تمہیں چھوڑ چکا ہوں"توچوں کہ چھوڑنے کا لفظ صریح طلاق میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اس لیے شوہر کے مذکورہ جملہ کہنے سے بیوی پر ایک طلاق واقع ہوکرمجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ، اب نہ رجوع جائز  ہے اورنہ ہی  دوبارہ آپس میں نکاح  ہوسکتاہے۔

لہذامطلقہ اپنی عدت(مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو  اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔تاہم اگر مطلقہ اپنی عدت گزار کر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے اور اس سے جسمانی تعلق قائم ہونے کے بعد وہ دوسرا شخص اسے طلاق دے دے یا بیوی طلاق لےلے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر وہ سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"فإن سرحتك كناية، لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال: "رهاكردم" أي سرحتك، يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضاً، و ما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، و قد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:299، ط: ايج ايم سعيد)

وفيه أيضا:

"وقد مر ان الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفا الافيه من اي لغة كانت،وهذا في عرف زمانناكذلك فوجب اعتباره صريحا."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات 3/ 252 ط:ايچ ايم سعيد)

وفيه أيضا:

"الصريح يلحق الصريح ويلحق البائن بشرط العدة و البائن يلحق الصريح الصريح ما لايحتاج إلى نية بائنا  كان الواقع به أو رجعيا."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات: 3 306 ط:ايچ ايم سعيد)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144311101875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں