بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو مشترک کمروں کو کرایہ پر دینا


سوال

ہمارے والد کے انتقال کے بعد  ان کے جائیداد تقسیم ہوئی ایک مکان اسی گز  کا تھا  جس میں نیچے والے حصے میں چالیس چالیس گز کے دو پورشن ہے   ان  میں  سے ایک پورشن  میرے پاس ہے اور دوسرا پورشن بھائی کے پاس ہے، میرے والے پورشن میں اوپر دو کمرے ہیں جن میں سے ایک میرے پاس ہے جو ذراخستہ حالت ہے اور بھائی والا جو کمرہ ہے وہ اچھا بناہوا ہے،اب میرے بھائی کے پاس جو کمرہ ہے وہ اس میں اپنے بیٹے کی شادی کرکے اسے ٹھہرانا چاہتے ہیں ،اس پر میں نے کہا کہ یہ کمرہ آپ بیس سال سے استعمال کرچکے  ہیں ،اب آپ یہ کمرہ مجھے  دے دیں اور میرا والا کمرہ آپ لیں جس پر بھائی راضی نہیں ہوئے،  تو میں نے کہا کہ یہ دونوں کمرے ویسے بھی والدمرحوم کی ملکیت تھے، جس کے ہم دونوں حصہ دار ہیں تو ایسا کرلیتے ہیں کہ یہ دونوں کمرے کرائے پر  دے دیتے ہیں اور جو کرایہ آئے  گا اس میں آدھا آدھا ہم لے لیں گے اور اس طرح ہمارا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ دونوں کمرے ہم  دونوں میں الگ الگ تقسیم نہیں ہوئے تھے بلکہ صرف زبانی طور پر ہی بات ہوئی   ہوگی ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا  شرعًا  یہ درست ہے کہ ہم یہ کرایہ پر دے دیں اور کرایہ آپس میں تقسیم کردیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دونوں کمروں میں جب دونوں بھائی برابر کے شریک ہیں،تو اس کے منافع میں بھی دونوں بھائی  برابر کے حق دار ہیں،  اگر دونوں بھائی اس پر راضی ہوجائیں  کہ مذکورہ دونوں کمرے کرایہ پر دے کر کرایہ کو آدھا آدھا تقسیم کریں گے ،تو شرعًا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"قال السائحاني: أفاد في التتارخانية إن تهايؤ المستأجرين صحيح غير لازم، وإن شرطا على المؤجر أن لأحدهما مقدم الدار وللآخر مؤخرها فسد العقد، ولو لم تسع سكناهما وأحدهما ساكن وطلب الآخر التهايؤ زمانا يجاب كما في حيطان الخانية اهـ (قوله كذلك) أي يأخذ هذا شهرا والآخر شهرا أو يأخذ هذا غلة هذه والآخر غلة الأخرى."

(کتاب القسمۃ6/ 269،ط:دارالفکر)

و فیه أیضًا (6/ 270):

"أقول: ظهر من هذا أن زيادة الغلة في نوبة أحدهما لا تنافي صحة المهايأة والجبر عليها، و يتأمل هذا مع ما في فتاوى قارئ الهداية أن السفينة لايجبر حملًا و لا استغلالًا من حيث الزمان بأن يستغلها هذا شهرا والآخر شهرا بل يؤجرانها والأجرة لهما اهـ وعلله بعضهم بأنه قد تكون غلة شهر أزيد من غلة آخر فلايوجد التساوي اهـ ولعل المراد لا يجبر على وجه يختص كل منهما بالزائد من الغلة و إلا فهو مشكل، فليتأمل."

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إذا اصطلح الرجلان في القسمة على أن يأخذ أحدهما دارا والآخر منزلًا في دار أخرى أو على أن يأخذ كل واحد منهما سهاما معلومة من دار على حدة أو على أن يأخذ أحدهما دارًا والآخر عبدًا أو ما أشبه ذلك من الاصطلاح في الأجناس المختلفة فذلك جائز، كذا في المبسوط."

(کتاب القسمة 5/ 212،ط:دارالفکر)

و فیه أیضًا

"دار بين رجلين فيها منازل تهايآ على أن يسكن كل واحد منهما منزلًا معلومًا أو علوًا أو سفلًا أو يؤاجره فهو جائز، و إن تهايآ في الدار من حيث الزمان بأن تهايآ على أن يسكن أحدهما هذه الدار سنة وهذا سنة أو يؤاجر هذا سنة و هذا سنة فالتهايؤ في السكنى جائز.

و أما إذا تهايآ على أن يؤاجرها هذا سنة وهذا سنة اختلفوا فيه.

قال الشيخ الإمام المعروف بخواهر زاده: الظاهر أنه يجوز إذا استوت الغلتان فيهما وإن فضلت في نوبة أحدهما يشتركان في الفضل وعليه الفتوى وكذا التهايؤ في الدارين على السكنى والغلة بأن تهايآ على أن يسكن هذا هذه الدار وهذا هذه الدار الأخرى أو يؤاجر هذا هذه الدار وهذا هذه الدار إن فعلا ذلك بتراضيهما جاز."

(کتاب القسمة ج: 5، ص:230ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں