بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ زمین بلااجازت فروخت کرنا


سوال

میری ساس نے ایک پلاٹ خریداتھا  پھر اس پر مکان بنایا ، ان کے ساتھ مذکورہ مکان میں ان کے ایک بیٹے اور ایک بیٹی (میری بیوی ) نے بھی رقم لگائی تھی ، جس میں تینوں  مشترک تھے اور پیسے لگاتے وقت بیٹا اور بیٹی نے والدہ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا یہ گھر مشتر ک ہوگا۔

 میری ساس نے اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ یہ مکان میرے بیٹے اور بیٹی کا ہے یعنی  جنہوں نے پیسے  ملائے تھے ، ان کا ہے اور ہمیں کہا بھی تھا کہ آجاؤ  اس میں رہائش  اختیار کرو ، لیکن میں نے سسرال کے ہاں جانا مناسب نہیں سمجھا اس لیے میں نہیں گیا اور میری  ساس کا  انتقا ل ہوا ، انتقال کے بعد جس بیٹے نے پیسے لگائے تھے ، اس نے مکان فروخت کیا ، جب کہ ہمیں بعد میں  پتہ چلا جب میری  بیوی حصہ لینے گئی  تو اس نے کہا کہ یہ تو میراہے  میرے نام ہے ، وہ کہہ رہاہے  کہ تمہیں ایک لاکھ روپے دوں گا اس کے علاوہ  کچھ بھی  نہیں دوں گاجب کہ   اس نے گھر فروخت کیاتھا 23 لاکھ ساٹھ ہزار میں ۔

اس گھر میں  میری ساس اپنی موت تک رہائش پذیر تھی ، معلوم یہ کرنا ہے  مذکورہ مکان میں میری بیوی کا کتنا حصہ ہے ؟ اور میرے سالے کا اسے بیچنا جائز ہے  یانہیں  جب کہ میری بیوی نے اجازت نہیں دی تھی ، نیز بہن بھائی کے خلاف قانونی کاروائی کرسکتی ہے یانہیں ؟۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کی ساس اور ان کے بیٹے اور  بیٹی (سائل کی بیوی )نے مشترکہ طور پر جومکان کی تعمیر میں رقم لگائی تھی یہ معاہدہ ہواتھا کہ یہ مکان مشترک ہوگا  تو شرعا مذکورہ مکان تینوں میں مشترک تھا  ۔ اس میں ہر ایک شریک اپنے حصے کے بقدر حق دار ہے ۔

سائل کے سالے کا مذکورہ مشترکہ مکان کو سائل کی بیوی کے اجازت کے بغیر فروخت کرناجائز نہیں تھا ،سائل کی بیوی  کے حصے میں بیع ( فروخت ) نافذ نہیں ہوئی ، اس لیے سائل کی بیوی اپنے بھائی کے خلاف قانونی کاروائی کرسکتی ہے ۔ سائل کی بیوی مشترکہ مکان میں اپنے حصے کے بقدر حق دار ہے اور  جب والدہ خود آخر تک  اسی مکان میں رہیں تھیں تو اس کا یہ کہنا کہ یہ مکان  رقم لگانے والے بیٹےاور بیٹی کا ہے شرعا اس کا کوئی  اعتبار  نہیں  والدہ مرحومہ کا حصہ میراث   کے طور پر ورثاء میں تقسیم ہوگااورسائل کی ساس کا مذکورہ مکان میں   جو حصہ ہے ،اس میں بھی سائل کی بیوی میراث میں سے اپنے حصے کے بقدر حق دارہے ۔

الدر المختار  میں ہے :

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل۔

(كتاب الهبة5/690ط:سعید)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

(كما بطل) (بيع صبي لا يعقل ومجنون) شيئا (وبيع ما ليس في ملكه)

(قوله وبيع ما ليس في ملكه) فيه أنه يشمل بيع ملك الغير لوكالة أو بدونها مع أن الأول صحيح نافذ والثاني صحيح موقوف.........اذ من شرط المعقود عليه :ان يكون موجودا،مالا متقوما مملوكا في نفسه ،وان يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه

(باب البيع الفاسد:5/59 ،ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم،......وأما شرائط النفاذ فنوعان أحدهما الملك أو الولاية والثاني أن لا يكون في المبيع حق لغير البائع

(کتاب البیوع،ج۳،ص۳،ط:دار الفکر)

شرح المجلۃ  للرستم باز میں ہے:

لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک غیرہ بلا إذنہ أو وکالۃ منہ أو ولایۃ علیہ، وإن فعل کان ضامنا۔

(۱/مادۃ96ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303100938

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں