بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میوزک پر مشتمل ویب سائٹ بناکر رقم کمانے کا حکم


سوال

 میں ایک website Developer ہوں اور مختلف ویب سائٹ پراجیکٹ پر کام کرتا ہوں ۔ مجھے ایک پروجیکٹ ملا ہے جو کہ کسی client کا ہے جس میں مجھے ایک ویب سائٹ بنانی ہے جو کہ کچھ میوزک کو چلائے گی،  تو میرا سوال یہ ہے جتنے لوگ وہاں میوزک سنیں گے وہاں اُس کا گناہ مجھے ملتا رہے گا یا نہیں؟ کیا اس طرح کی ویب سائٹ بنانا میرے روزگار کے لیے حرام ہے یا حلال؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں  جب مذکورہ ویب سائٹ شرعی طور پرمختلف حرام امور یعنی موسیقی وغیرہ پر مشتمل ہے(جیسے کہ سوال سے بھی ظاہر ہورہا ہے) تو ایسی ویب سائٹ بنانا  اور اس پر اجرت لینا  حرام ہے کیوں کہ    یہ  لوگوں کوگناہ کی طرف راغب کرنا ،اشاعتِ فاحش،اور گناہ میں تعاون اور سہولت فراہم کرنے جیسے کبیرہ گناہوں پر مشتمل ہے  ،  جتنے لوگ مذکورہ ویب سائٹ دیکھیں گے،سنیں گے ،سب کے گناہ میں سائل بھی برابر کا شریک ہوگا، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"وعن جرير قال:وذکر الحدیث فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» . رواه مسلم."

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الاول، رقم الحدیث:210، ج:1، ص:72، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:" حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی اسلام میں کسی نیک طریقہ کو رائج کرے تو اسے اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس کا ثواب بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے لیکن عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس آدمی نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کیا تو اسے اس کا بھی گناہ ہوگا اور اس آدمی کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ لیکن عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔"

بہرحال فی نفسہ اس طرح کے پروگرام اور ڈرامے دیکھنے سے ہی مکمل اجتناب کرنا چاہیے، اور آگے شیئر کرنے سے تو گناہوں پر مزید سنگین گناہ ہے۔

2: مذکورہ مفاسد کے پیشِ نظر میوزک پر مشتمل ویب سائٹ بناکر پیسے کمانا شرعا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی(حاشیۃ ابن عابدین) میں ہے:

"صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام: «استماع الملاهي معصية و الجلوس عليها فسق و التلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق؛ لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع لما روي: «أنه عليه الصلاة و السلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه."

(كتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:349، ط:ايج ايم سعيد)  

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبي) میں ہے:

" {وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ} (188) 

الْخِطَابُ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَتَضَمَّنُ جَمِيعَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَعْنَى: لَايَأْكُلُ بَعْضكُمْ مَالَ بَعْضٍ بِغَيْرِ حَقٍّ. فَيَدْخُلُ فِي هَذَا: الْقِمَارُ وَ الْخِدَاعُ وَ الْغُصُوبُ وَ جَحْدُ الْحُقُوقِ، وَ مَا لَاتَطِيبُ بِهِ نَفْسُ مَالِكِهِ، أَوْ حَرَّمَتْهُ الشَّرِيعَةُ وَ إِنْ طَابَتْ به نفس مالكه، كهر الْبَغِيِّ وَ حُلْوَانِ الْكَاهِنِ وَ أَثْمَانِ الْخُمُورِ وَ الْخَنَازِيرِ وَ غَيْرِ ذَلِكَ ... وَ أُضِيفَتِ الْأَمْوَالُ إِلَى ضَمِيرِ المنتهى لَمَّا كَانَ كُلُّ وَاحِدٌ مِنْهُمَا مَنْهِيًّا وَ مَنْهِيًّا عنه، كما قال: "تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ". وَ قَالَ قَوْمٌ: الْمُرَادُ بِالْآيَةِ"وَلاتَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ" أَيْ فِي الْمَلَاهِي وَالْقِيَانُ وَالشُّرْبُ وَالْبَطَالَةُ، فَيَجِيءُ عَلَى هَذَا إِضَافَةُ الْمَالِ إِلَى ضَمِيرِ الْمَالِكِينَ. الثَّالِثَةُ- مَنْ أَخَذَ مَالَ غَيْرِهِ لَا عَلَى وَجْهِ إِذْنِ الشَّرْعِ فَقَدْ أكله بالباطل، ومن الأكل بالباطل أن يقتضى الْقَاضِي لَكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّكَ مُبْطِلٌ، فَالْحَرَامُ لَا يَصِيرُ حَلَالًا بِقَضَاءِ الْقَاضِي، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يَقْضِي بِالظَّاهِرِ. وَهَذَا إِجْمَاعٌ فِي الْأَمْوَالِ."

(سورة البقرة، رقم الآية:188، ج:2، ص:338، ط:دارالكتب المصرية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144406101728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں