بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب ثانی کا جان کر مال ہلاک کرنا


سوال

 زید نے عمر سے بطور مضاربت رقم لی اور عمر سے کاروبار کی عام اجازت لی " میں جس طرح بھی چاہوں کاروبار کرسکتاہوں" پھر زید نے یہ رقم آگے بکر کو بطور مضاربت دی ۔بکر کے ساتھ مضاربت کے طریقے پر کام کرنے سے پہلے اس کے کام، دوکان  اورگودام ہر چیز کی مکمل تسلی کرلی اور ایگریمنٹ سائن کیا ۔ایک سال بعد بکر نے چھپ چھپ کر لوگوں سے بطور مضاربت اور رقم وصول کی ،جب وہ منافع اداکرنے پر قادر نہ ہوا تو بھاگ گیا چند دن بعد آیا اقرار کیا کہ میں نے کاروبار نہیں کیا بلکہ صرف دھوکہ کیا اور لوگوں کی رقم بطور نفع واپس کرتا رہا تاہم دو دوکان اور گودام وغیرہ تھے جن پر لوگوں نے قبضہ کرلیا۔

اب سوال یہ ہے کہ زید نے جو رقم عمر کو دی تھی اس رقم کا ضمان  عمر پر ہوگا یا نہیں موجودہ تمام صورت حال میں عمر  نے کوئی کوتاہی نہیں کی تھی ۔یہاں پر بعض علماء کہتے ہیں کہ اذن عام میں کسی دوسرے شخص کو مضاربت پر رقم دینا جائز تھا اور دوسرےمضارب ثانی نے تعدی کی ہے اور مضارب اول کے امر کا خلاف کیا ہے لہذا ضامن مضارب ثانی بکر ہوگا قرآن وسنت کی روشنی جواب عنایت فرمائیں اجرکم علی اللہ۔

تنقیح:زید اور عمر کے درمیان اور پھر عمر اور بکر کے درمیان معاہدہ کن بنیادوں پر طے پایا تھا؟نفع کا تناسب وغیرہ  کیا طے پایا تھا؟معاہدہ کے تمام مندرجات تفصیل کے ساتھ بیان کریں۔

عمر نے زید کو تجارت کے لئے رقم دی کہ زید اس سے تجارت کرے گا جو بھی منافع ہوگا دونوں نصف نصف کے حقدار ہوں گے۔

معاہدہ میں یہ بات طے پائی کہ زید تجارت میں مکمل آزاد ہوگا چاہے خود تجارت کرے یا کسی اور کے ہاتھ کرے۔

نفع اور نقصان کی صورت میں دونوں شریعت اسلامی کے تحت فیصلے کے پابند ہوں گے۔

پھر زید نے بکر  کو رقم بطور مضاربت دی اس کے ساتھ بھی نصف نصف پر معاملہ طے ہوا۔ 

زید نے بکر کو پابند کیا کہ تجارت خود کرے گا کسی اور کو مال نہیں دے سکتا،بکر اس رقم سے صرف سویٹ کا کاروبار کرسکتاہے۔

زید چاہے تو بکرکے  ساتھ مضاربت چھ ماہ میں ختم کرکے رقم واپس حاصل کرسکتاہے۔

نفع اور نقصان کی صورت میں معاملہ ایک مفتی صاحب کے سامنے رکھا جائے گا اور شریعت کے مطابق فیصلہ دونوں کو منظور ہوگا۔

ان شرائط کے بعد ایک مفتی صاحب پر یہ معاملہ پیش کیا گیا انہوں نے فرمایا کہ اس صورت میں زید سدس عمر ثلث اور بکر نصف کا حق دار ہے لہذا اسی طریقہ پر نفع کی تقسیم بھی ہوئی ہے۔

نوٹ زید نے بکر کا کاروبار چیک کیا تھا گودام وغیرہ بھی چیک کیے اور بعض دوکانداروں سے بھی بکر کے متعلق معلومات حاصل کی سب نے کاروبار کو سراہا تو رقم حوالہ یعنی رقم دینے میں جلد بازی نہیں کی بلکہ خوب تسلی کرکے دی تھی۔

جواب

صورت مسئولہ میں سوال کے ظاہر کے مطابق مضارب ثانی رقم کا ضامن ہے اور اس سے وصولی مضارب اول کے ذمہ ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل دفع إلى غيره مالا مضاربة وقال له اعمل برأيك على أن ما رزق الله تعالى من الربح يكون بيننا أو قال يكون بيننا نصفين فدفع الأول إلى غيره مضاربة وشرط للثاني ثلث الربح جاز ويكون للثاني ثلث الربح ولرب المال نصف الربح وللمضارب الأول سدس الربح وإن شرط الأول للثاني نصف الربح كان نصف الربح للمضارب الثاني والنصف لرب المال ولا شيء للأول..."

(کتاب المضاربۃ،الباب السابع فی المضارب یضارب،ج4،ص300،ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضا:

 "في المنتقى بشر بن الوليد عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - دفع رجل إلى رجل ألف درهم مضاربة بالنصف وأمره أن يعمل فيه برأيه فدفعه المضارب إلى آخر مضاربة وقال ما رزقني فهو بيني وبينك فنصف الربح لرب المال والنصف الآخر للمضاربين لكل واحد منهما نصفه كذا في المحيط."

(کتاب المضاربۃ،الباب السابع فی المضارب یضارب،ج4،ص300،ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"ولو استهلك المضارب الآخر المال أو وهبه كان الضمان على الآخر خاصة دون الأول لأنه في مباشرة هذا الفعل مخالف لما أمره الأول فيقتصر حكمه عليه..."

(کتاب المضاربۃ،الباب السابع فی المضارب یضارب،ج4،ص299،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں