بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب کا مال مضاربت کو اپنی شراکت کی دکان پر فروخت کرنا


سوال

ایک آدمی مضارب بھی ہے اور دوسری جگہ شریک بھی ہے ، اب مضارب پہلے مضاربت کا مال کسی اور کو بیچتا ہے ، پھر یہ خریدنے والا آدمی یہ مال جہاں مضارب شریک ہے ،اس پر فروخت کرتا ہے  تو گویا یہ مضارب ایک مال سے دو مرتبہ نفع کماتا ہے ۔ ایک مضاربت کی مد میں ، دوسرا شراکت کی مد میں ،کیا یہ شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو متبادل کیا صورت ہوسکتی ہے ؟

وضاحت از مستفتی:

مضارب ، مال مضاربت سے مال خرید کر ، پھر جس جگہ پر وہ دو آدمیوں کے ساتھ شریک ہے ، اس دکان پر مال بیچ دیتا ہے ، جس دکان میں شریک ہے ، وہاں یہ مضارب خود بھی کبھی بیٹھتا ہے یعنی عامل بھی ہے ، اور پھر اس دکان پر بیٹھ کر وہ مال مزید آگے فروخت کرتا ہے۔یوں دو مرتبہ نفع کماتا ہے ، یہی مضارب ، مال مضاربت کو اپنی دکان (شراکت والی)پر بیچتا ہے ۔ 

جواب

مضارب رب المال کا وکیل ہوتا ہے، اور وکیل اپنے آپ سے عقد نہیں کرسکتا ، اس لیے  صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص جو کہ مضارب ہے ، اس کے لیے مال مضاربت سے کوئی چیز خرید کر پھراپنے اوپر ہی فروخت کرنا یعنی اپنی شراکت کی دکان پربیچنا جائز نہیں ہے ، اس لیے کہ جس دکان پر یہ مضارب مال فروخت کررہا ہے وہاں یہ خود خریدار بھی بن رہا ہے ، اور ایک ہی شخص کا فروخت کرنے والا اور خریدنے والا دونوں  بننا لازم آتا ہے جوکہ جائز نہیں ہے۔ 

البتہ اگر یہ مضارب ، مضاربت کا مال کسی اور شخص کو فروخت کردے ، پھر اس سے اپنے لیے  یعنی شراکت کی دکان کے لیے خرید لے تو یہ جائز ہوگا، ليكن اس طرح ڈبل نفع كمانے كے ليے حيلہ كرنا مكروه ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"لا يعقد وكيل البيع والشراء والإجارة والصرف والسلم ونحوها (مع من ترد شهادته له) للتهمة وجوزاه بمثل القيمة (إلا من عبده ومكاتبه إلا إذا أطلق له الموكل) كبع ممن شئت (فيجوز بيعه لهم بمثل القيمة) اتفاقا (كما يجوز عقده معهم بأكثر من القيمة) اتفاقا: أي بيعه لا شراؤه بأكثر منها اتفاقا، كما لو باع بأقل منها بغبن فاحش لا يجوز اتفاقا، وكذا بيسير عنده خلافا لهما ابن ملك وغيره.وفي السراج: لو صرح بهم جاز إجماعا إلا من نفسه وطفله وعبده غير المديون.

 (قوله: إلا من نفسه) وفي السراج: لو أمره بالبيع من هؤلاء فإنه يجوز إجماعا إلا أن يبيعه من نفسه أو ولده الصغير أو عبده ولا دين عليه فلا يجوز قطعا وإن صرح به الموكل اهـ منح. الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه؛ لأن الواحد لا يكونمشتريا وبائعا فيبيعه من غيره ثم يشتريه منه، وإن أمره الموكل أن يبيعه من نفسه وأولاده الصغار أو ممن لا تقبل شهادته فباع منهم جاز بزازية كذا في البحر، ولا يخفى ما بينهما من المخالفة، وذكر مثل ما في السراج في النهاية عن المبسوط، ومثل ما في البزازية في الذخيرة عن الطحاوي، وكأن في المسألة قولين خلافا لمن ادعى أنه لا مخالفة بينهما."

(ج:5،ص:521،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں