بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضارب کی حیثیت اور مضاربت کا طریقہ


سوال

 زید کا بکر کے ساتھ مضاربت کی بنیاد پر ٹافی وغیرہ کی خرید و فروخت کا کاروبار ہے، زید رب المال ہے اور بکر مضارب، (اہم بات یہ ہے کہ بکر کا ٹافی کی تجارت کا اپنا ذاتی کاروبار بھی ہے) زید  نے بکر کو ٹافی خریدنے کے لئے سات لاکھ روپے کی ایڈوانس رقم دی، کیونکہ بکر کے ٹافی تیار کرنے والی کمپنی کے ساتھ پہلے سے تعلقات ہیں، بکر نے وہ مال خرید لیا ہے اور خرید کر پورا مال اپنے مضاربت والے کاروبار میں نہیں ڈالا بلکہ جتنا ضرورت ہوتی ہے اتنے مال کا بل بنا کر وہ مال گاہک کو بھیج دیتا ہے، بقیہ مال بکر کے قبضہ میں ہے اور زید کو یہ خدشہ ہے کہ یہ مال بکر کے ذاتی کاروبار میں مکس ہو کر غلطی سے بک بھی سکتا ہے جس کو اس صورت میں رکھنا جائز نہیں ہے، زید کی یہ رائے اس بنیاد پر ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان کا خون، عزت اور مال دوسرے مسلمان کے لئے حرام ہے، زید کی رائے یہ ہے کہ یہ بیع سلم ہے اور اس صورت میں بکر کے لئے لازم ہے کہ وہ مال خرید کر اس سارے مال کا بل بنا کر قبضہ مال کی تعداد اور دام کے تعین کے ساتھ مضاربت کو منتقل کر دے اور اسکو اپنے ذاتی مال میں مکس نہ ہونے دے، زید کی رائے غلط ہے یا درست؟

جواب

واضح رہے کہ عقدِ مضاربت میں مضارب کی حیثیت امین کی ہوتی ہے، اس لیے مضارب پر لازم ہوتا ہے کہ اگر رب المال نے اسے مطلق اجازت نہیں دی(کہ جیسے چاہو تجارت کرو) تو وہ راس المال کو اسی طرح استعمال کرے جیسے کہ رب المال نے کہا ہے، ورنہ خیانت اور تعدی کرنے والاشمار ہو گا اور ضمان لازم آئے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب زید نے بکر کو ٹافی کے کاروبار کے لیے سات لاکھ روپے دیے اور بکر نے سارے راس المال سے (ٹافیاں )مالِ مضاربت خرید لیا ہے، تواب وہ سارا مال مضاربت کا ہی شمار ہو گا۔بکر پر لازم ہے کہ وہ مال کا تعین کرے،اس کا بل بنائے،اسے الگ رکھے تاکہ معاملات شفاف رہیں اور مضاربت کے معاہدے کے مطابق  اس مال کی خرید و فروخت کرے،اور اپنے ذاتی مال میں خلط نہ کرے،البتہ بکر کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے تو مضاربت کے کل راس المال سےسارا مال ایک ہی ساتھ خریدے یا بقدرِ ضرورت، باقی اسے بیع سلم کہنا یا قرار دینا درست نہیں۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"أما الذي يرجع إلى حال المضارب في عقد المضاربة فهو أن رأس المال قبل أن يشتري المضارب به شيئا أمانة في يده بمنزلة الوديعة؛ لأنه قبضه بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة، فإذا اشترى به شيئا صار بمنزلة الوكيل بالشراء والبيع؛ لأنه تصرف في مال الغير بأمره، وهو معنى الوكيل فيكون شراؤه على المعروف، وهو أن يكون بمثل قيمته أو بما يتغابن الناس في مثله، كالوكيل بالشراء وبيعه على الاختلاف المعروف في الوكيل بالبيع المطلق."

(کتاب المضاربۃ ،فصل فی بیان حکم المضاربۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۸۷،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں