بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت اسکینڈل میں رقم لگانے والا صرف سرمائے کا مستحق ہے یا منافع کا بھی؟


سوال

عرض ہے کہ مضاربت کےنام پرجواسکینڈل ہواتھا چندسال پہلے، اس میں میں  نے بھی بطورِایجنٹ کے لوگوں سے کچھ پیسےذمہ داری پرلے کرآگےدیا، جوکہ ساراڈوب گیا، اب میں اپنی طرف سے وہی پیسہ واپس کرناچاہتاہوں۔

مگر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نےمنافع بھی لیااور اب سارارأس المال بھی واپس لے لیں، آیاان کے لیے یہ جائزہوگا کہ نہیں؟ یاجورقم انہوں نے بطورِ منافع کے لی تھی اس کو منہاکرکے باقی رقم ان کے لیےلیناجائز ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ   اب چوں کہ یہ بات ظن غالب کے درجہ کو پہنچ چکی ہے کہ مذکورہ مضاربت کے نام پر جمع کیے ہوئے سرمائے سے کوئی حقیقی کاروبار نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ لوگوں سے سرمایہ جمع کر کے لوگوں کے پیسوں کی ہی ہیر پھیر کر کے لوگوں کو نفع بانٹا جاتا تھا اور آخر میں سب کے پیسے غصب کر لیے گئے، لہذا اس مضاربت کے معاملہ میں ابتداء لوگوں کے پیسے مضارب کے پاس امانت تھے، پھر جب اس کو رب الاموال کی منشأ کے مطابق کاروبار میں نہیں لگایا گیا اور صرف ہیر پھیر کی گئی تو مضارب امانت میں تعدی کی وجہ سے اس رقم کا ضامن بن گیا اس پر رقم کی واپسی شرعا واجب ہوگئی اور جن لوگوں نے اس مضاربت میں پیسے لگائے وہ اپنے اصل سرمائے کے حق دار بن گئے  اور چوں کہ مضاربت کا صرف نام تھا، حقیقت میں مضاربت نہیں تھی تو یہ لوگ نفع کے مستحق نہیں ہیں ۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ جن لوگوں نے ایجنٹ بن کر لوگوں سے اس مضاربت کے لیے پیسے لیے وہ لوگوں کے سرمائے پر امین تھے اور جب انہوں نے وہ سرمایہ لوگوں کی منشأ کے مطابق مضاربت میں لگا دیا تو شرعا ان پر کوئی ضمان واجب نہیں ہے البتہ اخلاقی بنیاد پر کوئی ایجنٹ لوگوں کا سرمایہ واپس کرنا چاہتا ہے تو واپس کرسکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے جن لوگوں سے سرمایہ لیا تھا وہ اپنی اصل سرمائے کے مستحق ہیں اور جو مضارب تھا اس پر یہ رقم واپس کرنا واجب ہے، اس سرمائے پر  مضارب کی طرف سے اگر بالفرض نفع مل بھی رہا تب بھی  نفع وصول کرنا  جائز نہیں ہے ۔ سائل پر گو کہ اصل سرمایہ بھی واپس کرنا واجب نہیں ہے،  لیکن اگر پھر بھی وہ واپس کرتا ہے تو لوگوں کو ان کے سرمائے کے بقدر واپس کردے یعنی جس نے پہلے کچھ نفع وصول کرلیا تھا تو اس  نفع کی رقم کو سرمائے کی رقم سے  منہا کرکے بقیہ واپس کردے اور جس نے کچھ وصول نہیں کیا تھا اس کو مکمل سرمائے کی رقم واپس کردے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي۔"

(کتاب المضاربۃ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۸۵،دار الفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"أما الذي يرجع إلى حال المضارب في عقد المضاربة فهو أن رأس المال قبل أن يشتري المضارب به شيئا أمانة في يده بمنزلة الوديعة؛ لأنه قبضه بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة، فإذا اشترى به شيئا صار بمنزلة الوكيل بالشراء والبيع؛ لأنه تصرف في مال الغير بأمره، وهو معنى الوكيل فيكون شراؤه على المعروف، وهو أن يكون بمثل قيمته أو بما يتغابن الناس في مثله، كالوكيل بالشراء وبيعه على الاختلاف المعروف في الوكيل بالبيع المطلق"

(کتاب المضاربۃ ،فصل فی بیان حکم المضاربۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۸۷،دار الکتب العلمیۃ)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وليس له أن يقرض مال المضاربة؛ لأن القرض تبرع في الحال، إذ لا يقابله عوض للحال، وإنما يصير مبادلة في الثاني، ومال الغير لا يحتمل التبرع.

وكذلك الهبة والصدقة؛ لأن كل واحد منهما تبرع، ولا يأخذ سفتجة؛ لأن أخذها استدانة وهو لا يملك الاستدانة، وكذا لا يعطى سفتجة؛ لأن إعطاء السفتجة إقراض وهو لا يملك الإقراض إلا بالتنصيص عليه، هكذا قال محمد، عن أبي حنيفة أنه قال: ليس له أن يقرض، ولا أن يأخذ سفتجة، حتى يأمره بذلك بعينه، فيقول له: خذ السفاتج وأقرض إن أحببت فأما إذا قال له: اعمل في ذلك برأيك فإنما هذا على البيع والشراء والشركة والمضاربة وخلط المال وهذا قول أبي يوسف، وقولنا لما ذكرنا أن قوله: اعمل في ذلك برأيك تفويض الرأي إليه في المضاربة، والتبرع ليس من عمل المضاربة، وكذا الاستدانة بل هي عند الإذن شركة وجوه، وهي عقد آخر وراء المضاربة، وهو إنما فوض إليه الرأي في المفاوضة خاصة، لا في عقد آخر لا تعلق له بها، فلا يدخل في ذلك وليس أن يشتري بما لا يتغابن الناس في مثله، وإن قال له: اعمل برأيك.

ولو اشترى يصير مخالفا؛ لأن المضاربة توكيل بالشراء، والتوكيل بالشراء مطلقا ينصرف إلى المتعارف، وهو أن يكون بمثل القيمة، أو بما يتغابن الناس في مثله، ولأن الشراء بما لا يتغابن في مثله محاباة، والمحاباة تبرع، والتبرع لا يدخل في عقد المضاربة"

(کتاب المضاربۃ ،فصل فی بیان حکم المضاربۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۹۲،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100328

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں