بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں فیصد متعین کرنا


سوال

ایک شخص نے دوسرے شخص سے پندرہ لاکھ روپے لیے ہیں کہ اس پیسوں سے میں کوئلہ خریدتا ہوں، اب مہینے میں جتنا کوئلہ لگ گیا تو اس حساب سے میں آپ کو نفع دوں گاتو کیا یہ جائز ہے؟  کبھی اس کو چالیس ہزار روپے مہینہ دیتا ہے اور کبھی پچاس ہزار !

جواب

جو صورت آپ نے سوال میں ذکر کی ہے یہ صورت مضاربت کی ہے اور مضاربت میں منافع کو  فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرنا ضروری ہوتا ہے، آپ کے سوال سے صورتِ حال پوری طرح واضح نہیں ہورہی کہ منافع کی تقسیم کا فارمولا کیا ہے؟  اگر آپ حضرات نے حاصل ہونے والےنفع   کی فیصد  کے اعتبار سے منافع تقسیم کرنا  طے کیا ہے جس کی بنیاد پر  انویسٹر کو نفع کبھی چالیس اور کبھی پچاس ہزار ملتاہےتو  یہ صحیح ہے اور اگر فیصد کے اعتبار سے نفع طے نہیں کیا تو پھر یہ صورت جائز نہ ہوگی۔ 

البحرالرائق میں ہے:

"قال: (و لاتصح إلا أن یکون الربح بینهما مشاعاً، فإن شرط لأحدهما دراهم مسماةً فسدت )؛ لما مر في الشرکة، وکذا کل شرط یوجب الجهالة في الربح یفسدها لاختلال المقصود".

(بحر۵/۱۹۱ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202201153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں