ایک شخص نے دوسرے شخص سے پندرہ لاکھ روپے لیے ہیں کہ اس پیسوں سے میں کوئلہ خریدتا ہوں، اب مہینے میں جتنا کوئلہ لگ گیا تو اس حساب سے میں آپ کو نفع دوں گاتو کیا یہ جائز ہے؟ کبھی اس کو چالیس ہزار روپے مہینہ دیتا ہے اور کبھی پچاس ہزار !
جو صورت آپ نے سوال میں ذکر کی ہے یہ صورت مضاربت کی ہے اور مضاربت میں منافع کو فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرنا ضروری ہوتا ہے، آپ کے سوال سے صورتِ حال پوری طرح واضح نہیں ہورہی کہ منافع کی تقسیم کا فارمولا کیا ہے؟ اگر آپ حضرات نے حاصل ہونے والےنفع کی فیصد کے اعتبار سے منافع تقسیم کرنا طے کیا ہے جس کی بنیاد پر انویسٹر کو نفع کبھی چالیس اور کبھی پچاس ہزار ملتاہےتو یہ صحیح ہے اور اگر فیصد کے اعتبار سے نفع طے نہیں کیا تو پھر یہ صورت جائز نہ ہوگی۔
البحرالرائق میں ہے:
"قال: (و لاتصح إلا أن یکون الربح بینهما مشاعاً، فإن شرط لأحدهما دراهم مسماةً فسدت )؛ لما مر في الشرکة، وکذا کل شرط یوجب الجهالة في الربح یفسدها لاختلال المقصود".
(بحر۵/۱۹۱ط:دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144202201153
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن