بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں فیصد کی تعیین کا طریقہ


سوال

مضاربہ میں نفع کو فیصد کے حساب سے تعین  کی  مثال دے کر سمجھا دیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں انویسٹر نے جو رقم بھی  بطورِ  مضاربت دی  ہو اس سے کاروبار کے نتیجے میں جو نفع حاصل ہوگا، اس حاصل شدہ نفع کے فیصدی تناسب سے نفع کی باہم تقسیم ہوگی، انویسٹ کردہ رقم کے تناسب سے نہیں، مثال کے طور پر اگر کسی نے ایک لاکھ روپے دیے ہیں اور ان کا آپس میں فیصد یہ طے ہوا کہ رب المال(پیسے دینے والا) کا چالیس فیصد ہوگا اور مضارب (کام کرنے والے) کا ساٹھ فیصد ہوگا تو یہ  جائز ہے اور اس کے برعکس بھی جائز ہے اور برابر سرابر بھی جائز ہے۔  لہذا اگر ان کا آپس میں چالیس اور ساٹھ فیصد طے ہوا اور نفع مثلا دس ہزار ہوا تو ’’رب المال‘‘  کو چار ہزار اور ’’مضارب‘‘  کو چھ ہزار ملیں گے۔ اسی طرح باقی صورتوں میں بھی ہوگا۔

لیکن یوں طے کرنا درست نہیں ہوگا کہ مثلًا: ایک لاکھ روپے جو انویسٹ کیے ہیں ان کا پانچ فیصد یا دس فیصد انویسٹر کا ہوگا، کیوں کہ یہ سود ہوجائے گا، ایک لاکھ کا پانچ یا دس فیصد پہلے سے متعین ہے، اور انویسٹمنٹ پر پہلے سے متعینہ رقم طے کر کے دینا سود پر قرض دینا ہے، نیز کاروبار میں نفع کی طرح نقصان بھی ہوتاہے، لہٰذا اگر انویسٹ کردہ رقم کا کچھ فیصد متعین کرلیا جائے  تو عین ممکن ہے کہ کاروبار میں نفع ہی نہ ہو اور انویسٹر اس سے مطالبہ کرے، لہٰذا یہ جھگڑے کا باعث بھی ہوگا، جب کہ حاصل شدہ نفع کا  فیصدی تناسب  مقرر کرنے میں معاملہ سود سے بھی نکل جائے گا، اور نفع ہوگا تو نفع کے طے شدہ تناسب سے اس کی تقسیم ہوگی، اور نفع ہی نہ ہوا تو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

الفتاوى الهندية (4/ 285):

"فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعةً ولو شرط كله للمضارب كان قرضاً، هكذا في الكافي. فلو قبض المضارب المال على هذا الشرط فربح أو وضع أو هلك المال بعد ما قبضه المضارب قبل أن يعمل به كان الربح للمضارب والوضيعة والهالك عليها، كذا في المحيط ... ولو قال: خذ هذا الألف فاعمل بالنصف أو بالثلث أو بالعشر، أو قال: خذ هذا الألف وابتع به متاعاً؛ فما كان من فضل فلك النصف ولم يزد على هذا شيئاً، أو قال: خذ هذا المال على النصف أو بالنصف ولم يزد على هذا جازت استحساناً، ولو قال: اعمل به على أن ما رزق الله تعالى أو ما كان من فضل فهو بيننا جازت المضاربة قياساً واستحساناً، هكذا في المحيط".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں