بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں متعین رقم بطورِ نفع طے کرنا


سوال

عدنان زید سے ایک لاکھ روپے کاروبار کے لیے لیتا ہے، عدنان زید کے ساتھ ایک لاکھ روپے پر تین فیصد منافع طے کرتا ہے، ایک مہینے کے لیے جو کہ تین ہزار روپے بنتے ہیں، عدنان تین فیصد اس لیےطے کرتا ہے؛ تاکہ اخراجات میں بھول چوک کی وجہ سے زید کو نقصان نہ ہو، کیا یہ تین فیصد طے کرنا ٹھیک ہے جو کہ مہینہ کے تین ہزار روپے بنتے ہیں؟  کیا یہ سود تو نہیں ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک لاکھ کے تین فی صد یعنی تین ہزار روپے کو نفع طے کرنا شرعا  درست نہیں،بلکہ سود ہے جو کہ حرام ہے، اس بچنا ضروری ہے اور آئندہ  اگر پارٹنرشپ کرنا چاہتے ہیں تو اگر عدنان کا اپنا سرمایہ ہو تو شراکت کا معاہدہ کیا جائے اور اگر  عدنان کا سرمایہ نہ ہو ،بلکہ صرف محنت ہو تو مضاربت  کا معاملہ کیا جا سکتا ہے،  لہذا   اس کی صورت واضح کر کے مسئلہ معلوم کیا جائے ۔

حاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

ما في الزيلعي قبيل باب الصرف في بحث ما يبطل بالشرط الفاسد حيث قال: والأصل فيه أن كل ما كان مبادلة مال بمال يبطل بالشروط ‌الفاسدة ..........، لأن الشروط ‌الفاسدة من باب الربا،..........، لأن الربا هو الفضل الخالي عن العوض، وحقيقة الشروط ‌الفاسدة هي زيادة ما لا يقتضيه العقد ولا يلائمه فيكون فيه فضل خال عن العوض وهو الربا بعينه اهـ ملخصا

(کتاب البیوع، باب الربا، 5/ 169، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

(وأما) ‌حكم ‌المضاربة ‌الفاسدة، ........... ولا يستحق النفقة، ولا الربح المسمى، وإنما له أجر مثل عمله، سواء كان في ‌المضاربة ربح أو لم يكن؛ لأن ‌المضاربة ‌الفاسدة في معنى الإجارة ‌الفاسدة، ........، والربح كله يكون لرب المال؛ لأن الربح نماء ملكه

( کتاب المضاربة، فصل في بيان حكم المضاربة، 6/86، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں